Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور خدا (انکی مدد کرے گا وہ) یقینا انکی مدد پر قادر ہے
39۔ 44:۔ ترمذی ‘ نسائی ‘ مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت 2 ؎ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے تو مشرکین مکہ صحابہ ؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے اور صحابہ ؓ جب آنحضرت ﷺ سے ان تکالیف کا ذکر کرتے تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ صبر کرو مجھے ابھی لڑائی کا حکم خدا کی طرف سے نہیں ہے ‘ جس وقت مکہ سے ہجرت کا حکم آنحضرت کو ہوگیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو قرینہ سے معلوم ہوگیا کہ مشرکین مکہ پر اب کوئی وبال ضرور آئے گا اس لیے حضرت ابوبکر صدیق نے انا للہ پڑھی اور فرمایا ‘ قریش نے نبی وقت کو مکہ سے نکال دیا ‘ اب ان پر کوئی وبال آنے والا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے صدیق کی تصدیق میں یہ آیتیں نازل فرمائیں ‘ ترمذی نے اس شان نزول کی روایت کو حسن 1 ؎ اور حاکم نے صحیح کہا 2 ؎ ہے ‘ یہ پہلی آیتیں ہیں جن میں لڑائی کی اجازت مسلمانوں کو ملی ہے ‘ پہلی آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ آج تک جن مسلمانوں کو مشرک طرح طرح سے ستاتے تھے اور ستانے پر بھی مسلمانوں کو لڑائی کا حکم نہیں تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مخالفوں سے لڑنے کا حکم دے دیا ‘ غرض اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ‘ مکہ میں تھوڑے سے مسلمان جب تک تھے اور موسم حج پر مدینہ منورہ کے لوگ آن کر مسلمان نہیں ہوئے تھے اس وقت تک اگرچہ مکہ کے موجودہ مسلمان مشرکوں کی ایذا رسانی سے تنگ آکر لڑنے کو تیار تھے لیکن اللہ کی حکمت میں لڑائی کا حکم نازل ہونا مصلحت کے خلاف تھا جب اسی آدمیوں کے قریب انصار موسم حج کے وقت مسلمان ہوئے اور ہجرت کا حکم نازل ہو کر آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لے آئے اور مہاجر اور انصار مل کر ایک دل ہوگئے اور مسلمانوں کی جماعت بڑھ گئی ‘ اس وقت اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کا ظہور ہوا ‘ جب مسلمانوں کی جماعت تھوڑی اور مشرکوں کی بھیڑ زیادہ تھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کو آسمان سے فرشتے بھیجے ‘ چناچہ اس کا پورا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ‘ علاوہ اس کے مہاجرین کی ایک خاص مدد اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ انصار کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈال دی کہ مہاجروں کو اپنا شہر مکہ چھوڑنے کے بعد مدینہ میں ہر طرح کا آرام انصار کے سبب سے ملا اور یہ بھی فرما دیا کہ شرع کے طور پر لڑائی کے جائز کردینے میں بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے دین کی حفاظت ہوتی ہے اور کوئی مخالف دین ‘ کسی دین کی حد تک نہیں کرسکتا ‘ اگر یہ دین کی لڑائی جائز نہ ہوتی تو مخالف لوگ نصاری کے جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے عبادت خانے ‘ شہروں میں کے ان کے بڑے بڑے گرجا ‘ یہود اور مسلمانوں کی مسجدیں سب ڈھا دیتے اور ان میں اللہ کا ذکر بند ہوجاتا مگر اللہ بڑا زبردست ہے ‘ جو اس کے دین کی مدد کرتا ہے ‘ وہ اسے غیب سے مدد دے کر مخالف لوگوں پر غالب کردیتا ہے ‘ اس کے بعد مہاجرین کی تعریف فرمائی کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کی زمین میں ان کو ٹھکانہ ملے تو یہ نماز روزہ اور نیک کام کرتے ہیں اور ہجرت کا ذکر آنے سے آنحضرت ﷺ کے دل پر مشرکین مکہ کے جھٹلانے کا خیال جو گزرا تھا اور اس خیال سے کچھ رنج جو آپ کو ہوا تھا ‘ اس رنج کو اس تسکین سے رفع فرما دیا کہ ہمیشہ سے مخالف لوگ انبیاء کو جھٹلاتے رہے ہیں ‘ تمہارے ساتھ کچھ یہ بات نئی نہیں ہے اور انبیاء کی قوم کے لوگوں نے ان انبیاء کو جھٹلایا تھا ‘ اس واسطے ان قوموں کا نام لیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو نہیں جھٹلایا تھا ‘ بلکہ فرعون کی قوم نے جس کا نام قبطی قوم ہے ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا ‘ اس لیے جھٹلانے والی قوموں میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کا نام نہیں لیا اور جھٹلانے والی قوموں کے ہلاک ہوجانے کا ذکر بھی فرما دیا تاکہ قریش کو تنبیہ ہوجاوے کہ رسول وقت کے ساتھ سرکشی کرنے والوں کا جو انجام سلف سے ہوتا رہا ہے وہی انجام ان کا ہوگا ‘ اصحاب مدین شعیب (علیہ السلام) کی امت کو کہتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ راہ راست پر آنے کے لیے مہلت دیتا ہے ‘ جب مہلت کے زمانے میں وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قوم نوح سے لے کر فرعون تک منکر شریعت قوموں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے مہلت دی اور پھر طرح طرح کے عذابوں سے ان کو ہلاک کردیا۔ بدر کی لڑائی تک یہی عادت الٰہی قریش کے حق میں جاری رہی لیکن جب اس مہلت کے زمانہ میں مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کے وعدہ کو سچا پالیا فکیف کان نکیر اس کا مطلب یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں ان لوگوں کو جو ڈھیل دی گئی تھی ‘ مہلت کے بعد اس ڈھیل کو ناپسندی کی نظر سے اللہ تعالیٰ نے دیکھا اور ان لوگوں کو طرح طرح کے عذاب میں پکڑ لیا۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 225 ج 3 والدر المنثور ص 363 ج 4۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی ص 146 ج 2 ) (2 ؎ الدر المنثورص 364 ج 4 )
Top