Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا (کی شان) میں علم (و دانش) کے بغیر جھگڑتے ہیں اور ہر شیطان سرکش پیروی کرتے ہیں
3۔ 4:۔ تفسیر سدی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن جریج وغیرہ میں معتبر سند سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ نضربن حارث ایک شخص بڑا جھگڑالو مشرکین مکہ میں تھا جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور قرآن کو پچھلے لوگوں کی کہانی کہا کرتا تھا اور حشر کا بڑا سخت منکر تھا ‘ بدر کی لڑائی والے دن حالت کفر میں وہ مارا گیا اور اس کے ساتھ ایک دو اور تھے ‘ جو بجلی گر کر ہلاک ہوئے ایسے لوگوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ عقلی وجوہ سے شریعت کی باتوں کو مسترد نہ کیا جائے : حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ نضربن حارث اور اس کے ساتھیوں کی طرح آدمی کو دین کی بات میں عقل سے جھگڑنا نہیں چاہئے کیونکہ جن باتوں کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے ان میں سے اکثر باتوں کی مصلحت کو عقل نہیں پہنچ سکتی مثلا ریشمی کپڑے کو بہ نسبت سوتی کپڑے کے عقل اچھا اور نرم جانتی ہے مگر شریعت نے ریشمی کپڑا دنیا میں مرد کو جائز نہیں رکھا ‘ اس کی مصلحت عقل کی رسائی سے باہر ہے ‘ یہ شیطان کا کام ہے کہ آدمی کے دل میں عقلی وسوسہ دین کی باتوں میں ڈالتا ہے تاکہ جس طرح خود گمراہ ہوچکا ہے اوروں کو بھی گمراہ کر کے اپنے ساتھ دوزخ میں لے جائے ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے جو دین کی باتیں بتلا دی ہیں جو شخص ان باتوں کو چھوڑ کر عقل شیطانی وسوسوں میں پڑے گا۔ نضر بن حارث کی طرح اس کو دین و دنیا کا ٹوٹا بھگتنا پڑے گا کیونکہ شیطان کی قسمت میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ جو کوئی اس کا رفیق ہوگا وہ اس کو نیک راہ سے بہکا کر اپنے ساتھ اسے دوزخ میں لے جائے گا جس طرح ایک بادشاہ کے دو وزیر ایک نیک مزاج ایک ظالم فرض کیے جاویں اسی طرح ایک اللہ کا فرشتہ نیک کام کی صلاح دینے والا اور ایک شیطان بری راہ لگانے والا۔ یہ دونوں ہر وقت ہر انسان کے ساتھ لگے رہتے ہیں ‘ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود کی روایت میں ان دونوں ساتھیوں کا ذکر صراحت سے آچکا ہے جس نے صلاح رحمانی کے موافق کام کیا ‘ نجات پائی اور جو وسوسہ شیطانی میں پھنسا خراب ہوا ‘ بعضے دوست آشنا بھی آدمی کے انسان کی صورت میں شیطان کی خصلت کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ آدمی کو بری راہ لگنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں جن کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے ایسے لوگوں کی صحبت بھی آدمی کو برباد کردیتی ہے ایسے دوست آشناؤں سے بھی انسان کو بچنا چاہیے ‘ اسی واسطے اللہ کے رسول ﷺ نے صحیح بخاری ومسلم کی ابوسعید خدری ؓ کی روایت 1 ؎ میں ایسے دوست آشناؤں کی رفاقت کی مثال لوہار کی کھال دھونکنے والے کی رفاقت کی فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کھال دھونکنے والے کے پاس بیٹھنے میں آگ کی چنگاری اڑ کر ان پر پڑنے اور کپڑوں کے جلنے کا خوف ہے اسی طرح برے دوست آشناؤں کی رفاقت سے دوزخ میں جلنے کا اندیشہ ہے ‘ دوزخ کے عذاب کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اس عذاب کے منکر اور اس سے غافلوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب الحب فی اللہ ومن اللہ و صحیح بخاری ‘ باب المسک من کتاب الصید والذبائح ازروایت ابوموسیٰ ؓ
Top