Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 45
فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ
فَكَاَيِّنْ : تو کتنی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیا انہیں وَهِىَ : اور یہ۔ وہ ظَالِمَةٌ : ظالم فَهِيَ : کہ وہ۔ یہ خَاوِيَةٌ : گری پڑی عَلٰي : پر عُرُوْشِهَا : اپنی چھتیں وَبِئْرٍ : اور کنوئیں مُّعَطَّلَةٍ : بےکار وَّقَصْرٍ : اور بہت محل مَّشِيْدٍ : گچ کاری کے
اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے انکو تباہ کر ڈالا کہ وہ نافرمان تھیں سو وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور (بہت سے) کنویں بیکار اور (بہت سے) محل ویران (پڑے ہیں )
45۔ 48:۔ اوپر ذکر تھا کہ مہلت کے زمانہ میں نافرمان لوگوں کو جو ڈھیل دی گئی تھی ‘ مہلت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس ڈھیل کو بحال نہیں رکھا اور ان نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذابوں میں پکڑلیا ‘ ان آیتوں میں اس کی یہ تفسیر فرمائی کہ ان نافرمان لوگوں کی بستیاں اس طرح ناگہانی عذابوں سے ہلاک کردی گئیں کہ مثلا قوم لوط کی بستیوں کے مکانات چھتوں کے بل الٹ دیئے گئے ‘ قوم ثمود کے پکے پکے مکانات اور بڑے بڑے کار آمد کنویں نکمے پڑے رہ گئے ‘ آگے فرمایا ‘ یہ مشرکین مکہ تجارت کی غرض سے اکثر ملک شام کا سفر کرتے رہتے ہیں ‘ اس سفر میں کیا ان کو قوم ثمود اور قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں نظر نہیں آتیں ‘ پھر فرمایا ان لوگوں کے منہ پر آنکھیں ہیں اس لئے ان اجڑی ہوئی بستیوں پر تو ان کی نظر اکثر پڑتی ہے ‘ لیکن شرک اور گناہوں کے سبب سے ان کے دل اندھے ہیں اس واسطے نہ عبرت کی نظر سے ان اجڑی ہوئی بستیوں کو یہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں نہ اس کا کچھ حال ہوش حواس کے کانوں سے سنتے ہیں ‘ ترمذی ‘ نسائی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہوں سے آدمی کے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے ‘ اس حدیث سے مشرک کے دل کے اندھے ہوجانے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اندھے آدمی کی آنکھوں پر اندھیرا چھا جاتا ہے ‘ اور وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتا ‘ اسی طرح رات دن کے شرک سے مشرک کے سارے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے ‘ اس لئے اس کے دل میں کسی نیک بات کے سمجھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے بچ اس ہزار سال پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا ‘ اپنے علم کے موافق اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی یہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے دن کے عمل رات سے پہلے اللہ کے فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں اس تفسیر میں یہ بھی ایک 1 ؎ جگہ جتلا دیا گیا کہ زمین سے آسمان تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے جس سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اول آسمان سے زمین تک آنے جانے کا ہزار برس کا فاصلہ اللہ کے فرشتے ایک دن میں طے کرتے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ قریش میں کے عذاب کے جلدی کرنے والوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس کے حکم سے ہزار برس کا کام ایک دن میں طے ہوجاتا ہے اس کے حکم کے بعد عذاب کے آجانے میں کچھ دیر نہیں لگ سکتی مگر یہ عادت الٰہی ہے کہ لوح محفوظ کے نوشتہ کے مطابق پہلے نافرمان لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے ‘ پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو دنیا اور عقبیٰ کے عذاب میں ان کو پکڑ لیا جاتا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے بدر کے قصہ کی انس بن مالک کی روایت جو جگہ جگہ گزر چکی ہے ‘ اس سے آخری آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں کے یہ دل کے اندھے لوگ مہلت کے بعد اس لڑائی کے وقت دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ (1 ؎ نیز دیکھئے مشکوٰۃ ص 510 باب بد الخلق الخ فصل ثالث )
Top