Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 54
وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَّلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا اَنَّهُ : کہ یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے فَيُؤْمِنُوْا : تو وہ ایمان لے آئیں بِهٖ : اس پر فَتُخْبِتَ : تو جھک جائیں لَهٗ : اس کے لیے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهَادِ : ہدایت دینے والا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لائیں اور انکے دل خدا کے آگے عاجزی کریں اور جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا انکو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے
54۔ 57:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکوں کے حق میں شیطان کی شرارت کا کیا نتیجہ ہوا ان آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ اسی شیطانی شرارت سے سمجھ دار لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا انہیں یقین اور زیادہ ہوگیا کیونکہ وہ لوگ سمجھ گئے کہ شیطان کا دخل مٹانے اور قرآن کی آیتوں کو پکا کرنے کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے فرمایا گیا کہ قرآن اس کا کلام ہے اس کو اپنے کلام میں شیطان کا دخل اچھا معلوم نہیں ہوا ‘ پھر فرمایا ‘ اس یقین کی زیادتی کے سبب سے قرآن کی نصیحت کے موافق عمل کرنے کے لئے ان لوگوں کے دل پہلے سے زیادہ نرم ہوگئے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے علم غیب میں جو لوگ ایماندار ٹھہر چکے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے سیدھے راستہ پر آنے کے لیے اسی طرح کے سامان پیدا کردیتا ہے ہاں جو لوگ اللہ کے علم غیب میں منکر شریعت قرار پاچکے ہیں یا تو قیامت کے عذاب دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل جاویں گی ‘ یا قیامت سے پہلے کسی آفت کے دن کو دیکھ پاویں گے تو پچھتاویں گے ‘ اس سے پہلے قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں ایسے لوگوں کو ہمیشہ شبہ رہے گا ‘ اللہ سچا ہے ‘ اللہ کا کلام سچا ہے ‘ یہ ناگہانی آفت کا دن ان لوگوں کے حق میں بدر کی لڑائی کا دن تھا کہ جس طرح بانجھ عورت کو اولاد نصیب نہیں ہوتی اسی طرح ان میں کے بڑے بڑے سرکشوں کو اس دن صبح کی شام نصیب نہیں ہوئی جن کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے اگرچہ بعضے مفسروں نے یوم عقیم کی تفسیر قیامت کے دن کو قرار دیا ہے لیکن قیامت کا ذکر ان آیتوں میں جدا آیا ہے اس واسطے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں یوم عقیم کی تفسیر بدر کی لڑائی کے دن کو ٹھہرا کر اسی تفسیر کو صحیح قرار دیا ہے صحیح بخاری ومسلم کی حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ حشر کے دن ننگے پاؤں ‘ ننگے بدن سب لوگ ایک حالت میں ہوں گے ‘ اس حدیث سے آگے کی آیتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں عارضی بادشاہ اور امیر بہت سی آفتوں کو اپنی حکومت اور مالداری کے سبب سے ٹال دیتے ہیں ‘ قیامت کے دن سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی حکومت نہ ہوگی بلکہ بڑے بڑے بادشاہ اور امیر اس دن فقیروں کی طرفح ننگے پاؤں اور ننگے بدن اللہ تعالیٰ کے روبرو گھڑے ہوں گے اور فرمانبرداروں کے حق میں جنت میں داخل ہونے کا اور نافرمانوں کے حق میں دوزخ میں جھونکے جانے کا جو فیصلہ اللہ تعالیٰ اس دن فرماوے گا ‘ اس کا اثر بادشاہ ‘ امیر ‘ فقیر سب پر یکساں پڑے گا۔
Top