Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
اور وہی تو ہے جس نے تم کو حیات بخشی پھر تم کو مارتا ہے پھر تمہیں زندہ بھی کرے گا۔ اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے
66:۔ اوپر انسان کی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا احسان جتلایا جاکر اس آیت میں خود انسان کے پیدا کرنے کا احسان جتلایا گیا ہے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ انسان کی کچھ ہستی نہیں تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو نسیت سے ہست کیا ‘ اس کی سب ضروری کی چیزوں کو پیدا کیا۔ انسان کی عمر کی ایک تعداد مقرر کی جس کے پورے ہوجانے کے بعد ہر شخص مرجاوے گا اور پھر وقت مقررہ پر سزا وجزا کے لئے ہر شخص کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا کہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے لیکن انسان ایسا ناشکرہ ہے کہ اللہ کے ان سب احسانات کو بھول کر اللہ کی تعظیم میں ایسے غیروں کو شریک کرتا ہے کہ نہ انہوں نے انسان کو پیدا کیا نہ انسان کی کسی ضرورت کی چیز کو پیدا کیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے مغیرہ 1 ؎ بن شعبہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ رات کی نماز میں اللہ کے رسول ﷺ زیادہ کھڑے رہنے سے آپ ﷺ کے پاؤں سوج جاتے تھے لوگوں نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں ‘ پھر آپ عبادت میں اتنی کوشش کیوں کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا نہ کروں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اللہ کا شریک نہیں اس لیے انسان پر خالص دل سے اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے ‘ جو لوگ اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ‘ ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ہر شخص پر خالص دل سے اکیلے اللہ کی عبادت واجب ہے جو لوگ اس واجب میں خلل ڈالتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب التحریض علی قیام اللیل۔ )
Top