Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
101۔ 104:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور عبد اللہ بن مسعود کا اس باب میں اختلاف 1 ؎ ہے کہ ان آیتوں میں پہلے صور کا ذکر ہے یا دوسرے کا۔ رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ یہاں صور کے ذکر کے بعد عملوں کے تولے جانے کا تذکرہ فرمایا ہے اور اس پر سب سلف کا اتفاق ہے کہ عملوں کا تولا جانا دوسرے صور کے بعد ہوگا اس سبب سے عبداللہ بن مسعود کا قول قوی معلوم ہوتا ہے کہ ان آیتوں میں دوسرے صور کا ذکر ہے ترمذی ‘ ابوداؤد کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی صحیح روایت سورة الاعراف میں گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن میزان میں خوش اخلاقی بڑی بھاری چیز ٹھہرے گی ‘ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اعمال کو ایک طرح کا ہلکا اور بھاری جسم دیا جاوے گا ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اعمال کو جسم دیا جاوے گا اور اس جسم کو تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا ‘ وہ جنتی قرار پاویں گے اور جن کے بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جاوے گا ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جن لوگوں کے ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا ذکر ہے قیامت کے دن یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا ‘ اسی واسطے آگے کی آیت میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ قرآن کی آیتوں کو جھٹلانے والے ہوں گے جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کا ذکر ان آیتوں میں نہیں ہے لیکن سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہے جسکا نام اعراف ہے جن لوگوں کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کو جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ تک اس دیوار پر ٹھہرایا جاوے گا ‘ پھر جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ کے بعد یہ اعراف والے بھی جنت میں جاویں گے۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں انس بن مالک سے روایت 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی پر ظلم زیادتی کرنے کی فریاد کر کے اس کی سب نیکیاں لے لے گا ‘ اس کے بعد بھی ظلم زیادتی کا معاوضہ پورا نہ ہوگا تو اپنے گناہ اس ظالم بھائی پر ڈال دینے کی خواہش کرے گا ‘ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا 1 ؎ ہے ‘ حشر کے دن رشتہ داروں کے آپس میں پڑجانے کا ذکر جو آیتوں میں ہے اس کا حال اس حدیث سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ صحیح سند سے مسند امام احمد ‘ ترمذی ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں ابوسعید خدری سے روایت 2 ؎ ہے جس کا حاصل وہی ہے جو شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں بیان کیا ہے کہ جلتے جلتے تمام بدن سوج کر نیچے کا ہونٹ ناف تک لٹک پڑے گا اور اوپر کا ہونٹ سر پر جا چڑھے گا۔ یہ حدیث وَھُمْ فِیْھَا کَا لِحُوْنَ کی گویا تفسیر ہے ‘ دوزخیوں کی زبان کے گھسٹنے اور لوگوں کو اس کے روندنے کا ذکر جو شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں کیا ہے یہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کا خلاصہ ہے یہ حدیث ترمذی ‘ بیہقی وغیرہ میں 3 ؎ ہے اور اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابوالمخارق ہے جس کو ترمذی نے غیر مشہور بتلایا ہے لیکن یہ ابو المخارق الو العجلان کی کنیت سے زیادہ مشہور ہے اور امام بخاری کے مفرد کے معتبر راوی حمید بن ابی غنیہ وغیرہ نے ابو العجلان سے روایت لی ہے اس واسطے ابو العجلان کو بالکل غیر مشہور نہیں کہا جاسکتا۔ (1 ؎ فتح البیان ص 229 ج 3 ) (2 ؎ الترغیب والترہیب ص 405 ج 4 فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ؎ فتح الباری ص 167 ج 6 باب ) (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 405 ج 4 فصل فی ذکر الحساب وغیرہ ) (2 ؎ الدر المنثور ص 16 ج 5 ) (3 ؎ الترغیب والترہیب ص 484 ج 4 فضل فی عظم اہل النار )
Top