Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے
12۔ 17:۔ ابوداود، ترمذی کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت جس روایت کو ابن حبان نے صحیح بتلایا 2 ؎ ہے اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی مٹی ساری زمین سے ہر طرح کی اچھی بری ‘ سخت نرم سب سے لی تھی ‘ اسی تاثیر سے مختلف مزاج مختلف عادت کے انسان اولاد آدم میں پیدا ہوئے اور قیامت تک پیدا ہوں گے ‘ غرض اب دیکھنے میں اگرچہ آدمی کی پیدائش نطفہ سے ہے لیکن اس کی پیدائش میں مٹی کا اثر بھی ہے جو حضرت آدم سے لے کر قیامت تک سلسلہ بہ سلسلہ چلا آتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کی پیدائش کی اصل مٹی اور منی دونوں چیزیں فرمائی ہیں ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ مسند بزار ‘ صحیح ابن حبان میں جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی مٹی لے کر اس کا خمیر کیا ‘ پھر پتلا بنا کر چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس پتلے کی مٹی خوب سوکھ کر کھن کھن بولنے لگی ‘ جب اس میں روح پھونکی پہلے پہل روح حضرت آدم ( علیہ السلام) کی آنکھوں اور ناک نتھنوں میں آئی جس سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو چھینک آئی اور انہوں نے الحمد للہ کہا اور خود اللہ تعالیٰ نے یرحمک اللہ فرمایا ‘ روح پھونکنے سے پہلے اس پتلے کو شیطان نے دیکھ کر کہا تھا کہ یہ پتلا کسی بڑے کام کے لیے بنایا گیا ہے۔ ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا 4 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پتلے کو اندر سے خالی دیکھ کر شیطان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ اگر اس پتلے میں جان پڑی تو اس کے پیٹ میں بات نہ ٹھہرے گی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی جو روایت 5 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عورتوں کو خوش اخلاقی سے رکھنا چاہیے ‘ عورتوں کے مزاج میں ایک طرح کی کجی اس وجہ سے ہے کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہے اور پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہی ہوتی ہے۔ سیرت ابن اسحاق کی روایت اور روایتوں 6 ؎ میں اس حدیث کی صراحت یوں آئی ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے حضرت حوا ( علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی اب حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے دنیا عالم اسباب میں انسان کا یہ سبب ٹھہرا دیا ہے کہ عورت اور مرد میں مباشرت ہو کر دونوں کے نطفے سے انسان کی نسل بڑھی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت 7 ؎ کا حاصل یہ ہے کہ نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں رہ کر جما ہوا خون ہوجاتا ہے ‘ پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے اور ہڈیاں اسی گوشت سے بن کر ان ہڈیوں پر گوشت کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے اور پتلا تیار ہوجاتا ہے ‘ غرض چار ساڑھے چار مہینے میں یہ سب کچھ ہو کر پتلے میں اللہ کے حکم سے جان پڑجاتی ہے اور رحم پر جو فرشتہ تعینات ہے اس کو اس پتلے کی عمر ‘ رزق ‘ نیک وبد لکھنے کا اللہ کا حکم جس طرح ہوتا ہے وہ فرشتہ اس کہ موافق لکھ لیتا ہے ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس عادتی سبب نطفہ سے جو انسان پیدا ہوتے ہیں ‘ ان کا اور حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) بغیر اس سبب عادتی کے پیدا ہوئے تھے ‘ ان دونوں کا ذکر فرمایا ہے تاکہ حشر میں کسی کو شک نہ رہے اور سمجھنے والا سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کسی طرح کی پیدائش باہر نہیں ہے۔ اس آیت اور صحیح حدیث سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کی پیدائش نطفہ سے ہے تو اس کے مخالف اہل تشریح نے محض عقل سے یہ جو کہا ہے کہ مرد کے نطفہ کو بچہ کی پیدائش میں کچھ زیادہ دخل نہیں ہے ‘ بچہ تو حیض کے خون سے بنتا ہے۔ مرد کا نطفہ ایک ضامن ہے جو عورت کی منی کو جما دیتا ہے ‘ وہ ایک غلط قول ہے کیونکہ ایسی غیب کی باتیں محض عقل و قیاس سے صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکتی ہیں صحیح وہی ہے جو خود خالق انسان اور خالق کے رسول صاحب وحی ﷺ نے فرمایا ہے ‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عمر ؓ سے جو روایت 1 ؎ ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ انسان کی پیدائش کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ کی زبان سے نکلا فتبارک اللہ احسن الخلقین یہ ٹکڑا آخر آیت کا اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت عمر ؓ کے اس قول کے موافق نازل فرمایا ثم انشانہ خلقا اخر کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق یہ ہے کہ پتلے کے تیار ہوجانے کے بعد پھر اس پتلے میں روح پھونکی گئی ‘ حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اسی کو صحیح ٹھہرایا 2 ؎ ہے ‘ آگے فرمایا اس انسان کا اس طرح پیدا کرنا اور اس کی عمر کی ایک مدت کا ٹھہرانا کھیل تماشہ کے طور پر نہیں ہے کہ ہر شخص جب مر کر خاک ہوجاوے تو پھر اس کی خبر نہ لی جاوے کہ عمر بھر اس نے اپنی پیدائش کے بعد دنیا بھر کے لوگوں کو ایک ہی دفعہ دوبارہ پیدا کیا جا کر نیکی وبدی کو جزا وسزا کا فیصلہ کیا جاوے گا۔ آگے آسمانوں کی پیدائش کے شکریہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی مرضی کے موافق کچھ کام کیے یا نہیں اس لیے دنیا کی عمر ختم ہوجانے اور اس کے اجڑ جانے کا ذکر فرما کر یہ جتلایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اس حال سے بیخبر نہیں کہ وہ گر کر زمین اور اہل زمین کو برباد نہ کردیں ‘ اسی طرح ہر شخص کے نیک وبد کاموں سے بھی وہ غافل نہیں ہے اس کو سب کے عملوں کی خبر ہے جس کا نتیجہ وقت مقررہ پر سب کو معلوم ہوجائے گا۔ طریقہ کے معنی راستہ کے ہیں ‘ طرائق اسی کی جمع ہے ‘ کئی منزل کی عمارت کو اہل عرب طرائق اسی لیے کہتے ہیں کہ اوپر کی منزل کا راستہ نیچے کی منزل میں سے ہوا کرتا ‘ ساتوں آسمانوں کی بناوٹ بھی کئی منزل کی عمارت کی طرح ہے کیونکہ پہلا آسمان جس طرح سے دنیا کی چھت ہے اسی طرح ہر ایک آسمان دوسرے مسلمان کی چھت ہے اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کے راستہ کا فاصلہ ہے اسی واسطے سات آسمانوں کو سات راہیں فرمایا ‘ مسند امام احمد ترمذی وغیرہ میں چند صحابہ ؓ سے روایتیں 1 ؎ ہیں ‘ جن میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کے راستہ کا فاصلہ ہے۔ (2 ؎ فتح الباری ص 219 ج 3 ) (3 ؎ صتح الباری بات حلق آدم وزریتہ ص 219 ج 3 ) (4 ؎ ایضا ) (5 ؎ صحیح بخاری بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ (6 ؎ فتح الباری ص 222 ج 3 ) (7 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 241 ج 3 و صحیح بخاری مع الفتح ص 232 ج 3۔ ) 1 ؎ الدر المنثورص 7 ج 5 و تفسیر ابن کثیر ص 241 ج 3 ) (2 ؎ تفسیر ابن جریر ص 11 ج 18۔ ) (1 ؎ فتح الباری ص 188 ج 3 باب ماجاء فی سبع ارضین الخ۔ )
Top