Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور ہم ہی نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی نازل کیا پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے نابود کردینے پر قادر ہیں
18۔ 22:۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کی تاثیر سے سب مرے ہوئے لوگوں کی مٹی سے ان کے جسم اسی طرح تیار ہوجاویں گے جس طرح اب مینہ برس کی بیج سے کھیتی تیار ہوجاتی ہے ‘ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حشر کے دن ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جسم کے تیار ہوجانے میں ایسا ہی کام دے گا جیسے اب اناج کا بیج کھیتی کی تیاری میں کام دیتا ہے ‘ اس حدیث کا جہاں ذکر آیا ہے وہاں اس تفسیر میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ قرآن میں حشر کے ذکر کے ساتھ مینہ کا ذکر جو آیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ ان منکرین حشر کے نزدیک حشر بڑی چیز ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ہر سال کی کھیتی اور حشر برابر ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیک وبد کی جزا وسزا کی حکمت سے پیدا کیا ہے کھیل تماشہ کے طور پر نہیں پیدا کیا اسی طرح مینہ بھی حکمت سے ضرورت کے موافق برساتا ہے ‘ نہ ایسا بہت برستا ہے جس سے کھیتوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچ جاوے ‘ نہ ایسا تھوڑا کہ کھیتوں اور باغوں کو کافی نہ ہو ‘ زمین میں پانی کے ٹھہرنے کا یہ مطلب ہے کہ زمین کے اندر پانی ٹھہر کر اناج کے بیج اور میوے کی گٹھلی کو تری پہنچاتا ہے اور تالابوں وغیرہ میں جو پانی ٹھہر جاتا ہے وہ آدمیوں اور جانوروں کے پینے میں آتا ہے ‘ پھر فرمایا ‘ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے کچھ دور نہیں کہ زمین کے اندر اور تالابوں کے اندر کا پانی سوکھا دے جس سے کھیتی اور جانوروں کو نقصان پہنچ جاوے ‘ مدینہ کے اطراف میں کھجور کی اور طائف میں انگور کی بہت پیداوار ہے اس لیے خاص طور پر ان دونوں چیزوں کا نام لیا ‘ عرب لوگ کھجوروں اور انگوروں کی تجارت بھی کرتے اور کھاتے بھی تھے اس واسطے کھانے کا نام جدا لیا ‘ یہ سینا پہاڑ شام کے ملک کا وہی پہاڑ ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور تورات ملی ہے اس جنگل میں زیتون کے درخت بہت ہوتے ہیں ‘ اس واسطے اس پہاڑ کے پتہ سے زیتون کے درخت کا ذکر فرمایا۔ اس درخت کا پھل روئی کے ساتھ کھایا بھی جاتا اور اس کا تیل بھی نکلتا ہے ‘ آگے چوپایوں کے دودھ کے پینے ‘ ان کے گوشت کے کھانے ان پر سواری کے کرنے کی نعمتوں کا ذکر فرما کر یہ بھی فرمایا کہ جس طرح خشکی میں لوگ چوپایوں پر سواری کرتے ہیں ‘ دریا میں وہی حال کشتی کا ہے۔
Top