Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 45
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ١ۙ۬ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
ثُمَّ : پھر اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخَاهُ : اور ان کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون بِاٰيٰتِنَا : ساتھ (ہماری) اپنی نشانیاں وَ سُلْطٰنٍ : اور دلائل مُّبِيْنٍ : کھلے
پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیاں اور دلیل ظاہر دے کر بھیجا
45۔ 49:۔ اوپر کی آیتوں میں قوم شعیب کا ذکر مختصر طور پر فرما کر ان آیتوں میں قوم فرعون کا ذکر فرمایا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قوم شعیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کی پیغمبری کی تائید کے لیے ان کو عصا اور ید بیضاء کے معجزے بھی دیئے لیکن فرعون اور اس کی قوم کو یہ غرور کی باتیں سوجھیں کہ موسیٰ اور ہارون آخر بنی اسرائیل کی نسل میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کی ساری قوم ہمارے تابع ہے پھر ہم ان دونوں اپنے جیسے آدمیوں کو اپنا سردار اور راہبر کیونکر بنا سکتے ہیں ‘ کوئی فرشتہ اللہ کا نائب بن کر آتا تو اس کی نصیحت کو مان لینا البتہ ایک ٹھکانے کی بات تھی ‘ انسان کی پیغمبری کے منکر لوگوں کا جواب سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ فرشتوں کو اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو وہ بھی ضرور انسان کی صورت میں ہوتا جس سے میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو وہ بھی ضرور انسان کی صورت میں ہوتا جس سے ان لوگوں کا یہی شبہ باقی رہتا ‘ سورة الانعام کے جواب پر کفایت فرما کر ان آیتوں میں فرعون اور اس کی قوم کے اس اعتراض کا کچھ جواب نہیں دیا گیا کہ اللہ کا نائب کوئی فرشتہ ہونا چاہیے پھر فرمایا ‘ ان ہی غرور کی باتوں میں گرفتار ہو کر فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ اور ہارون کی پیغمبری کو جھٹلایا جس کے وبال سے یہ سب دریائے قلزم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے ‘ آگے فرمایا فرعون کے جیتے جی تو نبی اسرائیل کو کتاب آسمانی پر آزادی سے عمل کرنے کا موقع نہیں تھا اس لیے فرعون کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی تاکہ بنی اسرائیل کو ہدایت پانے کا پورا موقع ملے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو لوگ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جنت میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کام بھی ویسے ہی کرتے ہیں اسی طرح جو دوزخ میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ ویسے کام کرتے ہیں ‘ اس حدیث سے فرعون اور اس کی قوم کا انجام اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم فرعون میں سے جادوگر لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جنتی ٹھہر چکے تھے ‘ اس لیے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اژدھے کے معجزہ کو معجزہ سمجھ گئے اور سوائے جادوگروں کے باقی فرعونی لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخی قرار پاچکے تھے ‘ اس لیے وہ مرتے دم تک اسی معجزہ کو جادو کہتے رہے۔
Top