Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
51۔ 56:۔ جس طرح اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو غذائے حلال کی تلاش کا حکم فرمایا ہے ‘ اسی طرح سورة بقرہ میں عام پابند شرع لوگوں کو یہی حکم فرمایا ہے ‘ مسند امام احمد ‘ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ بعضے لوگ رات دن گڑ گڑا کر طرح طرح کی دعائیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتے ہیں اور جب ان کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں لیکن جب تک وہ غذائے حلال کے پابند نہ ہوں گے ان کی دعا میں کچھ تاثیر پیدا نہ ہوگی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ غذائے حلال سے رسولوں کے کلام میں تو یہ تاثیر پیدا ہوگی کہ وہ امت کے لوگوں کو جو کچھ نصیحت کریں گے اس میں اثر پیدا ہوجائے گا اور عام پابند شریعت لوگوں کے کلام میں غذائے حلال سے یہ تاثیر پیدا ہوگی کہ دعا یا عبادت کے طور پر جو کچھ ان کے منہ سے نکلے گا وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہونے کے قابل ٹھہرے گا ‘ آگے فرمایا غذائے حلال کے کھانے کے بعد خالص دل سے جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اس کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ نیک عمل کا دس گنے سے لے کر سات سو تک اور بعضی نیکیوں کا اس سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق اجر جو ملے گا اس کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے ‘ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ علمائے یہود اپنے آپ کو تورات کا وارث گنتے تھے اور اعمال ان کے ایسے تھے کہ جو عالم ان میں سے قاضی ہوجاتا تھا تو وہ لوگوں سے رشوت لے کر تورات کے برخلاف مقدمے فیصل کیا کرتا تھا ‘ توراۃ کے ذکر کے بعد اسی واسطے غذائے حلال کا حکم ایسے لوگوں کو یاد دلایا تاکہ توراۃ ‘ انجیل اور قرآن کے عالم لوگوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہوجاوے کہ جو شخص کتاب آسمانی کے موافق ہر نبی کے زمانہ میں بدلتے رہے ہیں ‘ دین عبادت کے طریقہ کو کہتے ہیں اور حرام حلال کے احکام کو شریعت کہتے ہیں ‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ اکیلے اللہ کی عبادت کا طریقہ ہر ایک نبی کے زمانہ میں جاری رہا ہے ‘ زیادہ تفصیل اس کی سورة الشورٰی میں آئے گی ‘ سورة الشورٰی کی آیتوں اور ابوہریرہ ؓ کی روایت کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے آیت وَاِنَّ ھٰذِہٖ اُمَتُکُمْ اُمَّۃًّ وَّاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنَ کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ کی عبادت کا جو طریقہ ہر ایک نبی کے زمانہ میں اللہ کے حکم سے جاری رہا ہے ہر شخص کو اس کے موافق اللہ تعالیٰ کی عبادت کا کرنا اور جو کوئی اس کے برخلاف کرے اس کو عذاب الٰہی سے ڈرنا ضرور ہے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم اگرچہ یہ ہے کہ شخص کو اس طریقہ کے موافق اللہ کی عبادت کرنی چاہیے جو طریقہ ہر ایک بنی کے زمانہ میں جاری رہا ہے لیکن اہل مکہ نے ملت ابراہیمی کو اور اہل کتاب نے اپنی کتابوں کو چھوڑ کر نئے طریقہ نکال لیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک فرقہ اپنے ایجاری طریقہ کو اچھا جانتا ہے ‘ اے رسول اللہ کے تم ان فرقوں کو حساب و کتاب ان کے حال پر چھوڑ دو ‘ وقت مقررہ آجائے تو جزاو سزا کا پورا فیصلہ ہوجائے گا ‘ پھر فرمایا ‘ ان لوگوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے مال و اولاد کی ترقی اس سبب سے ہے کہ اللہ ان سے رضامند ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ مالدار اور اولاد والی پچھلی امتوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہرگز ہلاک نہ کرتا۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب الکسب وطلب الحلال ص 241 )
Top