Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم کم شکر گزاری کرتے ہو
78۔ 81:۔ اوپر منکر حشر لوگوں کا یہ ذکر تھا کہ یہ لوگ حشر کے منکر ہیں اس سبب سے یہ عقبیٰ کی بہبودی کے سیدھے راستہ کو چھوڑ کر ٹیٹرھا راستہ چلتے ہیں ‘ ان آیتوں میں قدرت کی چند نشانیاں بیان فرما کر ایسے لوگوں کو قائل کیا گیا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ ان منکر حشر لوگوں کے سننے کے لیے کان ‘ دیکھنے کے لیے آنکھیں ‘ ہر بات کے سمجھنے کے لیے آنکھیں ‘ ہر بات کے سمجھنے کے لیے دل ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ پیدا کیا اب یہ لوگ ان چیزوں کے دوبارہ پیدا کرنے کو اللہ کی قدرت سے باہر جو گنتے ہیں ‘ تو انہوں نے اللہ کی قدرت کا بہت تھوڑا حق مانا ‘ پھر فرمایا ‘ جس طرح اب اللہ تعالیٰ نے ان منکرین حشر کو پیدا کرکے تمام روئے زمین پر ان کو بکھیر رکھا ہے اسی طرح حشر کے دن قبروں سے اٹھا کر میدان محشر میں ان کو جمع کیا جاوے گا۔ پھر فرمایا ‘ کیا ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نیست سے ہست کیا اور ان کی زندگی کے انتظام کے لیے موسم میں ردو بدل ہے جس کے سبب سے رات دن کا گھٹنا اور بڑھنا پیدا ہوگیا ‘ پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کی قدرت کی ان نشانیوں کو کچھ عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا ‘ بلکہ قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد اسی طرح حشر کے انکار پر جمے رہے جس طرح ان سے آگے کے منکر حشر تھے ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی روایت 1 ؎ سے حدیث قدسی ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ کے انکار سے انسان نے مجھ کو جھٹلایا ‘ حالانکہ انسان کی پہلی پیدائش سے دوسری پیدائش سہل ہے ‘ یہ حدیث وَاِلَیْہِ تُحْشرُوْنَ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے ایک بوند پانی سے منکرین حشر کے پتلے بنا کر ان میں روح پھونک دی ‘ اس کو خاک سے ان پتلوں کا دوبارہ بنا دینا اور ان میں روح کا پھونک دینا کسی معمولی عقل والے آدمی کے نزدیک بھی کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ یہ کام عقل کا نہیں ہے کہ کسی چیز کا موجود ہونا ایک دفعہ آزما کر پھر دوبارہ اسی چیز کے موجود ہوجانے سے انکار کرے یا اس دوبارہ موجود ہوجانے کو مشکل جانے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 13 )
Top