بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ (ایک) سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اسکے (احکام کو) فرض کردیا اور اس میں واضح المطالب آیتیں نازل کیں تاکہ تم یاد رکھو
1:۔ یوں تو سارا قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل فرمایا ہوا ہے لیکن اس سورت میں بدکاری کی شہادت ‘ اس کی سزا کے اسی طرح اور خاص خاص حکم تھے ‘ اس لیے تاکید کے طور پر فرمایا کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ‘ اس میں جو احکام صاف لفظوں میں نازل کئے گئے ہیں ‘ ان کی پابندی ہر ایماندار شخص پر لازم ہے اور ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی اور یاد رکھنی چاہیے کہ آیٔندہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے یہ احکام اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق نازل فرمائے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے مخزومیہ عورت کے چوری کے معاملے میں خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ شرعی سزا کے جاری کرنے میں پہلوتہی بڑی وبال کی بات ہے کیونکہ اس پہلوتہی سے پچھلی قوموں پر طرح طرح کی آفتیں آگئی ہیں ‘ اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اس سورت میں سزا کے احکام ہیں اور سزا کے احکام میں پہلوتہی کا کرنا بڑے وبال کی بات ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا ‘ یہ سورت اللہ تعالیٰ کی نازل فرمائی ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو احکام ہیں ان پر عمل کرنے میں پہلوتہی کرنا بڑے وبال کی بات ہے۔ (2 ؎ مشکوٰۃ ص 314 باب الشفاعۃ فی الحدود )
Top