بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
وہ (خدائے عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے
1۔ 3:۔ اگرچہ بعض سلف نے اس سورت کی ان تین آیتوں کو مدنی کہا ہے ‘ جس کا ذکر آگے آوے گا لیکن اس سورة کا شروع کا حصہ مکی ہے اور اس تفسیر میں یہ ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے کہ جس سورت کا شروع کا حصہ مکی ہو ‘ وہ سورت مکی کہلاتی ہے ‘ اس سورت کی قرأت کے باب میں حضرت عمر ؓ اور ہشام بن حکیم کا قصہ ہے جس کا ذکر صحیح بخاری اور مسلم کی حضرت عمر ؓ کو نئے معلوم ہوئے ‘ اس پر حضرت عمر ؓ ہشام بن حکیم کو اللہ کے رسول ﷺ کے پاس لے گئے۔ آپ نے حضرت عمر ؓ اور ہشام بن حکیم دونوں سے یہ سورت پڑھوا کر سنی اور فرمایا ‘ دونوں قراءتیں صحیح ہیں کیونکہ قرآن شریف کے جن لفظوں کو ایک طرح سے لے کر سات طرح تک پڑھے جانے کا حکم ہے ‘ تم دونوں کی قراءتیں اس کے موافق ہیں ‘ ان ساتوں قرائتوں کا ذکر اس تفسیر کے دیباچہ 2 ؎ میں صحیح بخاری ومسلم ‘ ترمذی وغیرہ کی روایتوں کے حوالہ سے تفصیل وار کردیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے فقط قریش کی بول چال کے موافق قرآن شریف نازل ہوتا رہا ‘ ہجرت کے بعد جب ایسے قبیلوں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن کی زبان پر قریش کی بول چال کے لفظ مشکل سے چڑھتے تھے ‘ اس مشکل کے آسان ہوجانے کے لیے سات طرح کے مختلف محاوروں میں قرآن شریف کے بعضے لفظوں کا پڑھا جانا جائز ہوگا ‘ جبرئیل (علیہ السلام) ان ساتوں محاوروں میں دور کیا کرتے تھے اور جو صحابہ اس دور کے وقت موجود ہوتے ‘ وہ ساتوں قرائتوں کے لفظوں کو جبرئیل (علیہ السلام) سے سن کر یاد کرلیا کرتے تھے ‘ اور باقی کے صحابہ کو پھر وہ لفظ آنحضرت ﷺ کے بتلانے سے معلوم ہوجایا کرتے تھے ‘ جبرئیل (علیہ السلام) کے جس دور میں ہشام بن حکیم نے وہ نئے لفظ سنے ‘ اس دور میں حضرت عمر ؓ موجود نہیں تھے ‘ اس واسطے ان کا اور ہشام بن حکیم کا جھگڑا ہوا اور پھر اللہ کے رسول ﷺ کے سمجھانے سے حضرت عمر ؓ کی تسلی ہوگئی ‘ یہ ہشام بن حکیم صحابی کے بیٹے اور مشہور صحابہ میں ہیں صحیحین میں سوائے اس قصہ کے اور کہیں ان ہشام بن حکیم کا ذکر نہیں ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اس کی آسمان و زمین میں بڑی برکت ہے جس نے حق اور ناحق میں فرق بتادینے کے لیے قرآن اپنے بندے اور رسول ﷺ پر اس لیے تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت نازل فرمایا کہ اللہ کے رسول لوگوں کو اس بات سے ڈراویں کہ جو کوئی اللہ کے حکم کو نہ مانے گا وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا ‘ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی حکومت سے آسمان و زمین میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے ‘ اس واسطے اس کے عذاب سے کہیں کوئی بچ نہیں سکتا ‘ پھر فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کو اپنی حکمت کے اندازہ کے موافق اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو جو لوگ اللہ کو صاحب اولاد یا اس کو حکومت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں کیونکہ جن کو یہ مشرک اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں انہوں نے اللہ کی مخلوقات سے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں داخل ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ کے کسی کارخانے میں ان کو کچھ دخل نہیں ہے ‘ ہر ایک کا نقصان نفع ‘ ہر ایک کی موت زندگی ‘ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ‘ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ‘ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں کو اپنے بتوں کی بےبسی کا اچھی طرح تجربہ ہوچکا ہے اس پر بھی اب یہ لوگ شرک سے باز نہیں آتے ‘ اس کا سبب یہی ہے کہ اللہ کے علم غیب میں یہ لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں ‘ اس واسطے ان کو بڑے کام اچھے نظر آتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کو ویسے ہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی وہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں مکہ کے قحط کا ذکر ہے ‘ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے جو لوگ منکر ہیں ‘ یہ ان کی بڑی نادانی ہے کیونکہ یہ لوگ دنیا کے جتنے کام کرتے ہیں ان کا نتیجہ پہلے سوچ لیتے ہیں ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے پیدا کرنے کا یہ نتیجہ قرار پاچکا ہے کہ تمام دنیا کے فنا اور ختم ہوجانے کے بعد جزا وسزا کے لیے دوسرا جہان قائم کیا جاوے تاکہ دنیا کا پیدا کیا جانا بےٹھکانہ نہ رہے کیونکہ بےٹھکانے کام اللہ تعالیٰ کی شان سے بہت بعید ہیں۔ (2 ؎ ص 21720 و 25‘ 26 جلد اول۔ )
Top