Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو لَا يَدْعُوْنَ : نہیں پکارتے مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی معبود وَلَا يَقْتُلُوْنَ : اور وہ قتل نہیں کرتے النَّفْسَ : جان الَّتِيْ حَرَّمَ : جسے حرام کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر جہاں حق ہو وَلَا يَزْنُوْنَ : اور وہ زنا نہیں کرتے وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ يَلْقَ اَثَامًا : وہ دو چار ہوگا بڑی سزا
اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس جاندار کو مار ڈالنا خدا نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق (یعنی حکم شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا
68۔ 77:۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت 6 ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے ‘ اس میں عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت دنیا میں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ‘ آپ نے فرمایا کہ جس اللہ نے بندے کو پیدا کیا ‘ ایک تو اس کی عبادت یا قدرت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا بڑا گناہ ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس کے بعد کون سا بڑا گناہ ہے آپ نے فرمایا ‘ تنگ دستی کے خوف سے آدمی کا اپنی اولاد کو قتل کر ڈالنا ‘ میں نے پوچھا ‘ پھر اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ‘ آپ نے فرمایا ‘ پڑوس کی عورت سے بدکاری کا کرنا ‘ آپ کے اس قول کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ‘ بعض مفسروں نے اس شان نزول میں یہ شبہ جو پیدا کیا ہے کہ آیت میں تو عام طور کے قتل اور زنا کا ذکر ہے اور حدیث میں خاص طور پر اولاد کے قتل اور پڑوس کی عورت سے زنا کا ذکر ہے ‘ پھر حدیث کی تصدیق آیت سے کیونکر نکل سکتی ہے اس کا جواب حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ دیا ہے کہ جب آیت سے عام طور کا قتل اور زنا گناہ ٹھہرا ‘ اور شریعت میں اولاد کے ساتھ شفقت کرنے کا اور پڑوس کی عزت و حرمت کا پاس رکھنے کا حکم ہے تو اولاد کا قتل کرنا اور پڑوس کی عورت سے بدکاری کا کرنا بہت بڑا گناہ ٹھہرا ‘ اس طرح آیت سے حدیث کی تصدیق نکل آئی اس آیت میں توبہ کے ذکر کا جو ٹکڑا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے صحیح بخاری 2 ؎ میں اس ٹکڑے کی شان نزول یوں بیان کی گئی ہے کہ جب اوپر کا ٹکڑا آیت کا نازل ہوا تو قریش نے کہا کہ ہم نے تو شرک ‘ قتل اور زنا سب کچھ کیا ہے ‘ پھر ہمارے لیے دائرہ اسلام میں داخل ہونا کیا مفید ہوسکتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ توبہ کے ذکر کا ٹکڑا نازل فرمایا اور یہ تو اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر ڈالے تو اس کی توبہ قبول نہیں لیکن جمہور سلف 3 ؎ کا عقیدہ یہی ہے توبہ سب کی قبول ہوتی ہے فقط اتنا ہے کہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا بڑا گناہ ہے اور اس کی توبہ کا قبول کرنا اور قاتل کو بغیر مؤاخذہ کے بخش دینا ‘ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ رحمن کے بندوں کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ نہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں نہ بغیر حکم شریعت کے کسی کے قتل کے درپے ہوتے ہیں ‘ حکم شریعت میں ایک تو قاتل کا قتل کرنا بطور قصاص کے آیا ہے یا اس شخص کو جو اسلام سے پھر جاوے یا بیا ہے ہوئے بدکار مرد عورت کا ‘ پھر فرمایا ان رحمان کے بندوں کی عادت بدکاری کی بھی نہیں ہے ‘ پھر فرمایا ‘ جو شخص شرک ‘ قتل ناحق اور بدکاری میں گرفتار ہوگا اور اسی حال میں مرجاوے گا تو ایسا شخص شرک کے سبب سے ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور سوائے شرک کے اور گناہوں کی سزا جدا اس کو بھگتنی پڑے گی ‘ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مشرک کی کسی طرح بخشش نہیں ہے ‘ ہاں مرنے سے پہلے جو شخص ان باتوں سے توبہ کرلے گا اور شرک کو چھوڑ کر ایماندار بن جائے گا اور اپنی توبہ کو سچا کرنے کے لیے توبہ کے بعد نیک کاموں میں مصروف رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی برائیوں کو اس طرح بھلائیوں سے بدل دے گا کہ ایسے شخص کے شرک کے زمانے کے سب گناہ معاف کر دے گا اور آیندہ گناہوں کی جگہ نیک کاموں کی توفیق دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ غضور رحیم ہے فَاُولِئٰٓکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِھِمْ حَسَنَاتٍ کی یہی تفسیر 1 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس کے صحیح قول کے موافق ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے ‘ پھر فرمایا جو شخص خالص دل سے توبہ کرتا ہے اور توبہ کے بعد اپنی توبہ کو سچا کرنے کے لیے نیک کاموں میں لگا رہتا ہے ‘ اسی کی توبہ خالص ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ جو شخص توبہ کے بعد بھی توبہ سے پہلے جیسے کاموں میں لگا رہے گا تو اس کی توبہ کسی کام کی نہیں ‘ معتبر سند سے طبرانی میں ابوذر ؓ سے روایت 2 ؎ ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص توبہ کے بعد پورا نیک بن گیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاویں گے ‘ نہیں تو اگلے پچھلے سب گناہوں کا مؤاخذہ ہوگا ‘ اس حدیث سے وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا کا مطلب وہی قرار پاتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ‘ بری بات یا بری چیز کو اچھی صورت میں ظاہر کرنا ‘ اس کو زور اور جھوٹی تعظیم اور سب گناہ داخل ہیں ‘ اس لیے آگے کی آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ شیطان نے شرک جیسی بری چیز کو اچھی صورت میں ظاہر کیا ہے ‘ وہ رحمان کے بندے اس کو جھوٹی بات جان کر شرک کے پاس نہیں پھٹکتے اور منکر شریعت لوگوں کو خلاف شریعت باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو لڑائی کا حکم نہ ہونے کے سبب سے درگزر کر جاتے ہیں ‘ پھر فرمایا ‘ ان رحمان کے بندوں میں یہ بھی اچھی عادت ہے کہ منکر شریعت لوگوں کی طرح دین کے سننے کی باتوں کو بہرے بن کر نہیں سنتے اور آنکھوں سے دیکھنے کی قدرت کی نشانیوں کو اندھے بن کر نہیں دیکھتے بلکہ جو کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں ‘ ان کے مگر ان کی بیوی بچے ابھی نعمت اسلام سے محروم ہیں لیے یہ رحمن کے بندے اپنی بیوی بچوں کے حق میں یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ہم کو ہمارے بیوی بچوں کی طرف سے یہ آنکھوں کی ٹھنڈک دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کو ایماندار پرہیزگار دیکھ لیں اور ہم کو ان پرہیزگاروں کا امام اور پیشوا بنا دے ‘ مطلب یہ ہے کہ ہم کو پرہیزگاری کی زیادہ توفیق دے تاکہ ہمارے بیوی بچے ایماندار اور پرہیزگار بن جانے کے بعد زیادہ پرہیزگاری کی باتیں ہم سے سیکھیں ‘ آگے ان رحمان کے بندوں کا بھی انجام فرمایا کہ انہوں نے دنیا میں دین کی پابندی کے سبب سے طرح طرح کی تکلیفیں جو اٹھائی تھیں ‘ ان کے بدلہ میں ان کو جنت جھرونکو دار اونچے محل دیئے جاویں گے ‘ عبادہ بن الصامت کی ترمذی 1 ؎ وغیرہ کو صحیح روایت کے حوالہ سے اس کی تفسیر میں یہ کئی جگہ بیان کردیا گیا ہے کہ جنت کہ سو درجے ہیں اور نیچے کے درجے سے اوپر کے درجے تک پانچ سو برس کے راستہ کا فاصلہ ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت 2 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کے نیچے کے درجے والے لوگوں کو اوپر کے درجے کے لوگ اس طرح نظر آویں گے جس طرح زمین پر سے آسمان کے تارے نظر آتے ہیں ‘ اس حدیث سے جنت کے محلوں کی بلندی اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ‘ سورة الانبیاء اور سورة الزمر کی آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ جب جنتی لوگ جنت میں جانے لگیں گے تو جنت پر تعینات فرشتے جنتیوں کے استقبال کے لیے جنت کے دروازہ پر آن کھڑے ہوں گے اور سلام علیکم کے بعد جنت میں داخل ہونے اور وہاں پر ہمیشہ رہنے کی جنتیوں کو مبارک باد دیویں گے اور یہ کہیں گے کہ دنیا میں جس جنت کے ملنے کا تم سے وعدہ تھا ‘ آج اس جنت میں داخل ہونے کا دن ہے ‘ سورة الانبیاء اور سورة الزمر کی آیتیں یُلَقَّوْنَ فِیْھَا تَحِیَّۃً وَّسَلَامً کی گویا تفسیر ہے ‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہوجاویں گے تو اللہ کے فرشتے ڈھنڈورہ کے طور پر پکار پکار کر کہیں گے کہ اب تم لوگ ہمیشہ صحت وسلامتی سے اس عیش و آرام میں رہوگے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ جنتیوں کو جنت میں رہنے کا حکم قیامت کے دن ڈھنڈورے کے طور پر سنا دیا جائے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جنت میں تھوڑی سی جگہ تمام دنیا سے بہتر ہے ‘ یہ حدیث حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا کی گویا تفسیر ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے معاذ بن حبل کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں ‘ اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچاوے ‘ اس حدیث کو آخری آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیروں کو جو شریک کرتے ہیں اور اللہ کے کلام اور اس کے رسول کو جھٹلاتے ہیں تو ان کا اللہ تعالیٰ پر کچھ یہ حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچاوے ‘ اس واسطے اللہ تعالیٰ کو ان کے ہمیشہ دوزخ میں جلنے کی کچھ پرواہ نہیں ‘ مشرکین میں کے بڑے بڑے کلام الٰہی اور اللہ کے جھٹلانے والوں پر دنیا اور آخرت کا یہ عذاب بدر کی لڑائی میں آیا کہ اس لڑائی میں یہ لوگ دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے یہ بدر کی لڑائی کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے ‘ حاصل کلام یہ کہ اکثر سلف نے فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا کے وعدہ کا ظہور اسی بدر کی لڑائی کو قرار دیا ہے اور شاہ صاحب نے ترجمہ میں اسی قول کو لے کر لزاما کا ترجمہ بھٹیا کیا اور فائدہ میں اس کا مطلب لڑائی کا بتلایا ہے ‘ سلف کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ لزاما کے معنی لازمی اور دائمی عذاب کے ‘ جس کا ظہور مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکش سرداروں کے حق میں بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ سورة فرقان ختم ہوئی۔ (6 ؎ مشکوٰۃ باب الکبائر و علامات النفاق۔ ) (2 ؎ باب قولہ یضا عف لہ العذاب الایۃ۔ من کتاب التفسیر۔ ) (3 ؎ فتح الباری ص 286 ج 4۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 327 ج 3 ) (2 ؎ الترغیب والترہیب ص 105 ج 4 ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب صفۃ الجنۃ واہلہا۔ ) (2 ؎ ایضا )
Top