بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
(1 تا 4) شروع سورة میں جو طٰسٓمٓ ہے یہ حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں ان حروف کا ذکر سورة بقرہ میں بیان ہوچکا 1 ؎ ہے۔ کتاب کے لفظ سے مطلب قرآن شریف ہے اور مبین کے معنی اس واضح اور روشن کے ہیں جس سے حق و ناحق کا فیصلہ ہوجاوے باخع کے معنے ہلاک کرنے والا مشرکین مکہ کے ایمان نہ لانے کے رنج کو دور کرنے کے لیے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر ﷺ کی تسلی ہے ‘ یہ آیت مثل سورة فاطر کی آیت کریمہ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسٔکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ الٰایۃ کے ہے سورة فاطر کی آیت اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے ایمان نہ لانے پر زیادہ رنج کرنے سے اپنے رسول کو منع فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں سے عکرمہ اور قتادہ ؓ نے باخع نفسک کی تفسیر قاتل نفسک کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں کے ایمان نہ لانے کے رنج میں تم اپنی جان کو ہلاک نہ کرو اس تسلی کے بعد فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو آسمان سے ایسی نشانی اتارتا کہ ان کو جبرا وقہرا ایمان لانا پڑتا مگر ایسا مجبوری کا ایمان اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نیک و بد کے امتحان کے لیے پیدا کیا ہے مجبوری کی حالت میں وہ امتحان کا موقع باقی نہیں رہتا سورة الم السجدہ میں آوے گا کہ اگر اللہ چاہے تو ہر ایک جن اور انسان کو نیک کر دیوے لیکن دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ جب جن وانس کو نیک وبد کا اختیار دیا جا کر دنیا میں پیدا کیا جاوے تو اس قدر جن وانس اپنے اختیار سے نیک کام کریں گے اور اس قدر برے کام کریں گے اور پھر نیکوں کو جنت میں داخل کیا جاوے گا اور بد جن وانس کو دوزخ میں جھونکا جائے گا ‘ تبارک الذی میں آوے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انصاف کے موافق جزا وسزا کا مدار اپنے علم ازلی پر نہیں رکھا بلکہ دنیا کی ظاہری حالت پر رکھا ہے جیسا کوئی کرے گا ویسا ہی پھل پاوے گا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ کو اس بات کا حد سے زیادہ رنج تھا کہ باوجود ہر وقت کی نصیحت کے تمام مشرکین مکہ راہ راست پر کیوں نہیں آتے اور آپ کے رنج کو یہ بتلا دیا کہ اگر اللہ چاہے تو تمام جنات اور انسان راہ راست پر آجاویں لیکن دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے برخلاف کسی بات کو اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو اسی نوشتہ تقدیری کے موافق دنیا کا چلانا منظور ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی خود بھی تسکین ہوگئی اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کی مثال سے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی سمجھا دیا کہ جو لوگ علم ازلی میں بد قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں دین کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (1 ؎ ص 69 جلد اول ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ فصل اول 12 )
Top