Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 102
فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَلَوْ : پس کاش اَنَّ لَنَا : کہ ہمارے لیے كَرَّةً : لوٹنا فَنَكُوْنَ : تو ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
کاش ہمیں (دنیا میں) پھرجانا ہو تو ہم مومنوں میں ہوجائیں
102 تا 104:۔ اوپر کی آیتوں کے موافق جب کہ جنت طرح طرح کی نعمتوں سے آراستہ کی جاوے گی جس آراستگی کا ذکر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح بخاری ومسلم کی روایت 4 ؎ میں مختصر طور پر یوں فرمایا ہے کہ ایک کمان کی لکڑی کی لمبائی برابر جگہ بھی جنت میں تمام دنیا اور تمام دنیا کی نعمتوں سے بہتر ہے اور اسی طرح دوزخ میں طرح طرح کے عذاب مہیا کئے جاویں گے جس کا ذکر آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی ترمذی 5 ؎ کی صحیح روایت میں اس طرح فرمایا ہے کہ دوزخ کے تھور کے دودھ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں آن پڑے تو تمام اہل دنیا کی زیست دشوار ہوجائے اس جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذابوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر اوپر کی آیتوں میں فرما کر اب یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں تو عاقبت کے منکر لوگ دوزخ کے عذاب سے نڈر ہیں میدان حشر میں جب وہ عذاب دیکھیں گے۔ تو یہ خواہش کریں گے۔ کہ کاش وہ پھر دنیا میں پیدا کئے جاویں اور نیک کام کر کے جس طرح نیک کام کرنے والوں کو اس عذاب سے نجات مل گئی ہے اسی طرح ان کو بھی اس عذاب سے نجات مل جاوے مگر یہ خواہش ان کی اللہ تعالیٰ کے علم میں جھوٹی ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں فرما دیا ہے کہ اگر ان لوگوں کو دوبارہ دنیا میں پیدا کیا جاوے تو پھر یہ ایسے ہی میرے مخالف کام کریں گے جیسے اب کر رہے ہیں غرض یہ تو حشر کے وقت کا حال ہوا اب حساب کتاب کے بعد لوگ جب دوزخ میں منہ کے بل ڈالے جاویں گے اس وقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں فرمایا ہے کہ کبھی تو یہ بدلوگ قسمیں کھا کھا کر اپنی گمراہی پر افسوس کریں گے اور کبھی یہ بد لوگ شیطان یا گمراہ کرنے والے دوست جنہوں نے بہکایا ہے ان کو برا بھلا کہیں گے اور کبھی چھوٹے گناہ گاروں کو انبیاء اور ملائکہ اور نیک لوگوں کی شفاعت سے نجات پاتے دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کوئی دوست ان کا بھی ایسا پیدا ہوجاوے کہ ان کی شفاعت کرے اور ان کو اس عذاب سے نجات دلوادے مگر آخرت تو ایسا ایک مقام ہے کہ سوا توحید کے اور کوئی چیز وہاں کام نہیں آسکتی اس واسطے ان مشرکوں کو کوئی آرزو کام نہ آوے گی اور فرشتے ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر اوپر کی آیتوں کے موافق یہ طعنے دیویں گے کہ اللہ کے سوا جو تم لوگوں نے دنیا میں اپنے معبود ٹھہرا رکھے تھے وہ تمہارے معبود آج کہا ہیں وہ معبود ایسے برے وقت میں آن کر تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کی عقلمندی اس میں ہے کہ دنیا میں کچھ نیک عمل کر کے عاقبت کے لیے تھوڑا بہت ذخیرہ کرلے اور پھر اللہ کی رحمت سے عاقبت میں نجات کی توقع رکھے جو لوگ دنیا میں تمام عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور عاقبت میں اپنی بہبودی کی توقع اللہ سے رکھتے ہیں وہ لوگ بالکل عقل سے بےبہرہ ہیں اور وقت پر کوئی توقع ان کی پوری ہونے والی نہیں معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں شداد بن اوس 1 ؎ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو دنیا میں عاقبت کے نجات کے کام کرے اور عقل سے بےبہرہ وہ شخص ہے جو دنیا میں جو اس کا جی چاہے وہ کرتا ہے اور عاقبت میں اللہ تعالیٰ کی جناب سے طرح طرح کی اپنی امیدیں اور خواہش پوری ہونے کی ہوش دل میں رکھتا ہے آخر فرمایا کہ دنیا میں عقبیٰ کا انجام جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جتلا دیا ہے یہ اس کی قدرت کی ایک نشانی ہے لیکن جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ کسی نشانی سے راہ راست پر نہیں آنے والے یہ اللہ کی ایک رحمت ہے جو اس نے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اگر مہلت کے زمانہ میں بھی یہ لوگ نہ راہ راست پر آئے تو اللہ کی پکڑ بھی ایسی زبردست ہے کہ جب وہ پکڑتا ہے تو وہ بالکل برباد کردیتا ہے چناچہ اس کے بعد چند نافرمان قوموں کے قصے ان لوگوں کو سنائے جاتے ہیں جن قصوں سے ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کافران قوموں کو پہلے مہلت دی گئی اور پھر مہلت کے بعد ان کا انجام کیا ہوا۔ (4 ؎ مشکوٰۃ باب صفۃ الجنۃ واہلہا۔ ) (5 ؎ مشکوۃ النار واہلہا فصل دوسری۔ ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب استحباب المال والعمر للطاعۃ فصل دوسری۔ )
Top