Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 123
كَذَّبَتْ عَادُ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا عَادُ : عاد ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
(123 تا 140) اوپر کے رکوع میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کا ذکر تھا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے بعد دوسرے نبی ہود گزرے ہیں اس رکوع میں ان کا اور ان کی امت کا ذکر ہے شروع میں یہ ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو وہی نصیحت کی جو نوح (علیہ السلام) نے اپنی امت کو کی تھی۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا پڑپوتا ایک شخص عاد بن ارم تھا اس کی اولاد کو حضرت ہود ( علیہ السلام) کی امت کہتے ہیں تفسیر ثعلبی وغیرہ میں باغ ارم کی حکایت جو لکھی ہے کہ شداد بن عاد کا ایک باغ اور عمارت یمن کے ملک میں ہے اللہ کے حکم سے کبھی وہ باغ یمن کے ملک میں رہتا ہے کبھی عراق کے ملک میں آجاتا ہے سونے چاندی کی اینٹوں سے وہ عمارت بنی ہوئی ہے معاویہ ؓ کی خلافت میں لوگوں نے اس باغ اور عمارت کو دیکھا ہے یہ سب باتیں صحیح تفسیروں اور صحیح تاریخوں کی کتابوں میں بالکل نہیں 1 ؎ ہیں یہ حضرت ہود ( علیہ السلام) کی امت کے لوگ بڑے شہ زور اور صاحب قوت تھے تفسیر ابن حاتم میں ایک حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس قوم عاد میں ایک شخص اتنا بڑا پتھر پہاڑوں سے لڑھکا دیا کرتا تھا جس سے اور قوم کے صدہا لوگ ہلاک ہوجایا کرتے تھے اور قرآن شریف میں بھی کئی جگہ اس قوم کے شہ زور ہونے کا ذکر ہے اس قوم کے لوگوں کو نمود کی عمارتیں بنانے کا بڑا شوق تھا انہیں بےفائدہ عمارتوں کے بنانے سے حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو روکا ہے حضرت ابو درداء صحابی ؓ جب دمشق کے ملک 3 ؎ میں تھے انہوں نے دیکھا کہ دمشق کے مسلمان لوگ باغ اور مکان بنانے کی بڑی حرص کرتے ہیں اس پر انہوں نے سب لوگوں کو دمشق کی جامع مسجد میں جمع کر کے ایک خطبہ پڑھا تھا جس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگو تم قوم عاد نے اتنا کچھ بنا کر پھر آخر کو یہیں چھوڑ دیا ان عمارتوں کو کوئی دو کوڑی کو بھی نہیں پوچھتا ابوداؤد کی انس بن مالک کی معتبر روایت 4 ؎ سے اوپر گزر چکا ہے کہ ایک صحابی ؓ نے ایک پختہ برج بنایا تھا جب وہ برج آپ کی نظر پڑا تو آپ نے ان کو صحابی ؓ سے بات نہ کی اور منہ پھیرلیا آخر ان صحابی نے وہ برج ڈھا ڈالا اور آپ نے یہ فرمایا کہ ضرورت سے زیادہ دنیا میں عمارت کا چھوڑ جانا بڑی وہاں کی چیز ہے۔ مسند امام احمد ‘ ترمذی اور ابن ماجہ کی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی معتبر 5 ؎ روایت سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک بورئیے پر سوئے تھے اس بوریئے کا نشان آپ کے جسم مبارک پر پڑگیا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ مجھ کو خبر ہوتی تو حضرت میں آپ کے لیے کچھ بچھونا پچھا دیتا آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو دنیا میں زیادہ پھنسنا منظور نہیں ہے دنیا میں فقط اتنا آرام لینا چاہتا ہوں جس طرح ایک مسافر ایک پیڑ کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس نے اپنی راہ لی صحیح مسلم کی حضرت جابر ؓ کی حدیث 1 ؎ جس میں مری ہوئی بھیڑ بکری کی مثال دنیا کی حقارت کے باب میں آپ ﷺ نے فرمائی ہے اور مستورد بن شداد ؓ کی صحیح مسلم کی روایت جس میں دریا میں انگلی ڈبو کر نکالنے کی مثال دنیا کے حق میں فرمائی ہے یہ حدیثیں اور اس قسم کی حدیثیں اوپر گذر چکی ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا ایک چند روزہ عارضی مقام ہے اس میں مضبوط عمارتیں یا باغ لگا کر جو کوئی دنیا پر زیادہ گرویدہ ہوتا ہے تو یہ کام اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کو ہرگز پسند نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق ریع کے معنے اونچی جگہ کے ہیں اسی مطلب کے ادا کرنے کے لیے شاہ صاحب نے ریع کا ترجمہ ٹیلے کے لفظ سے کیا ہے قوم ہود کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ کہ جب اپنی امت کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلا کر بےفائدہ عمارتیں بنانے سے اور آپس کے ظلم و زیادتی سے ہود (علیہ السلام) نے منع کیا تو امت کے لوگوں نے سرکشی سے یہ جواب دیا کہ اے ہود ( علیہ السلام) تم ہم کو نصیحت نہ کیا کرو ہم تمہاری ایک نہ سنیں گے اور پچھلے لوگوں کی عادت کے موافق عیش و عشرت سے اپنی زندگی بسر کریں گے اور جس عذاب سے تم ہر وقت ہم کو ڈراتے ہو اس سے ہم نہیں ڈرتے اس کے بعد سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ ایک سخت آندھی کے عذاب سے یہ قوم ہلاک ہوئی اسی کو فرمایا کہ ایسی شہ زور قوم کا ہوا جیسی چیز سے ہلاک ہوجانا اللہ کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے لیکن علم الٰہی میں جو لوگ گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے بالکل غافل ہیں جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے یہ غافل لوگ غفلت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو پکڑتا ہے تو پھر برباد کردیتا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گذر چکی ہے وہی حدیث قوم ہود کی مہلت اور ہلاکت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل وہی ہے جو قوم نوح ( علیہ السلام) کے قصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 342 ج 3 تفصیل کے لیے دیکھئے ایضا تفسیر ابن کثیر ص 508 ج 4 تفسیر سورة الفجر 2 ؎ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر (بحوالہ تفسیر ابن ابی حاتم) ص 41 3 ج 3۔ ) (4 ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الرقاق فیصل دوسری۔ ) (5 ؎ ایضا۔ ) (1 ؎ ایضا فصل اول۔ )
Top