Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ لُوْطِ : قومِ لوط ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
(اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
(160 تا 175) یہ حضرت لوط ( علیہ السلام) اور ان کی امت کا قصہ ہے سورة ہود میں اس قصے کی تفصیل گزر چکی ہے حاصل قصہ کا یہ ہے کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے شام کے ملک کی طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ہجرت کی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ انہوں نے بھی ہجرت کی سدوم ایک بستی شام کے نواح میں ہے وہاں کے یہ نبی ہوئے وہاں کے لوگوں نے یہ گناہ ایجاد کیا تھا کہ عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے بدفعلی کیا کرتے تھے مدت تک حضرت لوط ( علیہ السلام) نے لوگوں کو نصیحت کی مگر کچھ اثر نہ ہوا اور ایک شخص بھی ان میں سے راہ راست پر نہ آیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل اور میکائیل اور اسرافیل کو انسان کی صورت میں ان کے عذاب کے لیے بھیجا پہلے یہ تینوں فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو نہیں پہچانا اور مہمان سمجھ کر ان کے لیے کھانا لے آئے جب انہوں نے کھانا نہیں کھایا تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو تعجب ہوا اس پر انہوں نے جتلایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور لوط ( علیہ السلام) کی امت پر عذاب نازل ہونے کا حال بھی بیان کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس عذاب کے ٹل جانے کی سفارش کے ان فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم نہیں ٹل سکتا پھر یہ فرشتے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے رخصت ہو کر سدوم گئے اور وہاں خوبصورت لڑکوں کی صورت بن گئے اور حضرت لوط کے گھر میں مہمان بن کر اترے حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی نے قوم کے لوگوں کو ان خوبصورت نو عمر مہمانوں کی خبر دی اور وہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ کر آئے جب اللہ کے فرشتوں نے حضرت لوط ( علیہ السلام) کو جتلایا کہ ہم خوبصورت لڑکوں کی صورت میں اللہ کے فرشتے ہیں تمہاری امت پر اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں تھوڑی رات رہے تم اس بستی سے نکل کر چلے جانا پیچھے پھر کر ہرگز نہ دیکھنا صبح کو ان لوگوں پر عذاب آوے گا اور تمہاری بی بی بھی ان لوگوں میں ملی ہوئی ہے اس واسطے وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہوگی صبح کو اللہ کے حکم سے اس بستی پر پتھروں کا مینہ برسا اور حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) (علیہ السلام) نے اس بستی کے زمین کے ٹکڑے کو اٹھا کر الٹ دیا اب وہاں کا پانی بھی استعمال کے قابل نہیں رہا خوبصورت لڑکوں کی خبر سن کر جب قوم کے لوگ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ کر آئے اسی وقت حضرت لوط ( علیہ السلام) نے اپنی تنہائی پر افسوس کر کے یہ کہا تھا کہ کاش میرے رشتہ کے لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں ان کی مدد سے امت کے لوگوں سے لڑتا حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جدا ہو کر اکیلے سدوم میں نبی ہو کر گئے تھے اور تنہا وہاں رہتے تھے اس واسطے انہوں نے اپنی تنہائی پر افسوس کیا معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو روایت 1 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے بغیر کنبے کے لوگوں کی مدد کے کسی نبی کو اکیلا کسی بستی میں نہیں بھیجا۔ تفسیر ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد اتنا اور زیادہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس روایت کے ثبوت میں حضرت شعیب کے قصہ کی یہ آیت پڑھا کرتے تھے (ولو لا رھطک لرجمناک) مختصر طور سے ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت صحیح بخاری 2 ؎ میں بھی ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قصہ کا حاصل مطلب یہ ہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی امت میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے جو مخالف لوگ تھے وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے یوں کہا کرتے تھے کہ تمہارے کنبے کے لوگ نہ ہوتے تو اے شعیب ہم تم کو قتل کر ڈالتے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث جو اوپر گزر چکی قوم لوط کی مہلت اور ہلاکت کی وہی حدیث گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ دیکھئے فتح الباری ص 224 ج 3 باب ولوطا اذا قال لقومہ الآیہ ) (2 ؎ کتاب الانبیآء )
Top