Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 204
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ
اَفَبِعَذَابِنَا : کیا پس ہمارے عذاب کو يَسْتَعْجِلُوْنَ : وہ جلدی چاہتے ہیں
تو کیا یہ ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں ؟
(204 تا 207) جس طرح اور امتوں کے لوگوں نے اپنے انبیاء سے یہ کہا تھا کہ اگر تم سچے نبی ہو تو ہم پر عذاب لے آؤاسی طرح قریش نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اگر یہ قرآن سچ ہو اور ہم اس پر ایمان نہ لانے ہوں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسیں یا اور کوئی عذاب آجاوے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں پچھلی امتوں کے سرکش لوگوں پر طرح طرح کے عذاب آجانے اور ان کے ہلاک ہوجانے کا ذکر فرما کر اس آیت میں قریش میں نضربن حارث اور ابوجہل کی عذاب کی دعا کا یہ جواب دیا ہے کہ اب تو دنیا کی فارغ البالی کے سبب سے اترا کے ان لوگوں کو یہ سرکشی سوجھی ہے کہ خواہشیں کر کے عذاب کے دعائیں مانگتے ہیں پہلی امتوں کی طرح دنیا میں ہی یا اگر دنیا میں ہی یا اگر دنیا چند روزہ گزر گئی تو آخرت میں جس وقت عذاب الٰہی کی مصیبت ان کے سر پر آن پڑے گی تو وہ ایسی مصیبت ہے کہ یہ دنیا کا چند روزہ عیش و آرام جس کے سبب سے آج یہ لوگ اترار ہے ہیں ان کو ذرا یاد بھی نہ رہے گا مصیبت ہی مصیبت پھر پکاریں گے مسلم کی روایت سے حضرت انس ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بڑے بڑے عیش و آرام میں دنیا بسر کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالتے ہی جب ان سے فرشتے پوچھیں گے کہ کبھی دنیا میں تم نے کچھ راحت دیکھی تھی تو اس تکلیف کے آگے دنیا کی سب راحت بھول کردہ قسم کھا کر یہی جواب دیں گے کہ ہم نے کبھی راحت کی صورت بھی نہیں دیکھی یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اب تو دنیا کی فارغ البالی کے نشہ میں یہ لوگ عذاب کے خواہش کرتے ہیں لیکن جب عذاب میں گرفتار ہوجاویں گے تو دنیا کی یہ چند روزہ فارغ البالی ان کو یاد بھی نہ رہے گی۔
Top