Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 215
وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اخْفِضْ : جھکاؤ جَنَاحَكَ : اپنا بازو لِمَنِ : اس کے لیے جس نے اتَّبَعَكَ : تمہاری پیروی کی مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں
اور جو مومن تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان سے بتواضع پیش آؤ
(215 تا 224) اوپر رشتہ داروں کو ڈرسنانے کا حکم تھا اب فرمایا بازو جھکادے ان کے لیے جو تیرے ساتھ ہوں ایماندار مطلب یہ ہے کہ ایمان والے خواہ اپنے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ان کے ساتھ تو شفقت سے رہ اور جو تیری نافرمانی کرے وہ کوئی کیوں نہ ہو اس سے جدارہ اور کہہ کہ میں بیزار ہوں تمہاری حرکتوں سے اور بھروسہ کر اس زبر دست رحم والے پر جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو تہجد کو اٹھتا ہے اور پھرتا ہے سجدہ کرنے والوں میں ان کی خبر کو کہ غافل ہیں یا یاد الٰہی میں مشغول ہیں بیشک وہ پروردگار ہر ایک بات کو سنتا جانتا ہے مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے جب تم صحابہ ؓ کے ساتھ فرض نماز پڑھتے ہو تو اس نماز کا رکوع سجود اور تمہارا تہجد کے وقت کا اٹھنا اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اور اے رسول اللہ کے جب اللہ تعالیٰ تمہارے ذرا ذرا حال سے خبردار اور واقف ہے تو ہر حال میں تم کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے جس میں انس ؓ کہتے ہیں کہ دس برس تک میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہا لیکن کبھی آپ دنیا کی باتوں میں مصروف نہ ہوئے مسلمانوں سے شفقت کے ساتھ پیش آنے کا حکم جو ان آیتوں میں ہے اس کی تعمیل کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے بحاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے جو روایت 2 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ تصویروں کا پردہ دیکھ کر آنحضرت ﷺ کو غصہ آگیا تھا ان آیتوں میں خلاف شرع بات پر بیزاری کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ کی روایت 3 ؎ سے جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سوتے میں ایک شخص نے ننگی تلوار کھینچ کر آپ ﷺ سے پوچھا تھا کہ آپ کو میرے حملہ سے اب کون بچائے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو اللہ بچائے گا اللہ پر بھروسہ کرنے کا جو حکم ان آیتوں میں ہے یہ حدیث اس کی تعمیل کی تفسیر ہے پھر فرمایا کہ بتاؤں تم کو کس پر شیطان اترتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں جو کاہن کہلاتے ہیں وہ لوگ کسی شیطان سے نذرو نیاز سے پیش آن کر اس کو اپنا دوست بتاتے ہیں اس لیے وہ شیطان ان کی خاطر سے ملائکہ کی گفتگو سننے کی آسمان پر جاتا ہے تو وہ فرشتے اس کو انگارے مارتے ہیں اس پر بھی ایک دو بات اس کے کان میں پڑگئی تو اس نے اپنے دوست سے آ کر کہہ دی اس نے لوگوں سے کہہ دی لوگ اس کے قائل ہوگئے پھر ایک دو بات جو ملائکہ سے سنی تھی چار پانچ باتیں اپنی طرف سے ان میں اور جو زمین پر آخر کو وہ جھوٹ پڑیں یا سچ ہوئیں شیطان نیکوں سے ناخوش ہے کیوں کہ وہ اس کو برا جانتے ہیں ہاں جھوٹے آدمیوں سے شیطان خوش ہے کہ وہ اس کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں اور جھوٹے شاعروں کی بات پر وہی لوگ عمل کرتے ہیں جو بہکے ہوئے گمراہ ہیں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ کچھ آدمیوں نے پیغمبر صلعم سے کاہن لوگوں کا حال دریافت کیا آپ ﷺ نے فرمایا ان باتوں کا کچھ اعتبار نہیں لوگوں نے عرض کیا وہ جو کچھ کہتے ہیں تو کبھی سچ بھی ہوتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک بات سچی ہوتی ہے جس کو وہ آسمان پر کی باتوں سے لے لیا ہے لیکن پھر جنات اور کاہن لوگ اس میں سو جھوٹ ملادیتے ہیں یلقون السمع و اکثر ھم کا ذبون کا یہی مطلب ہے کہ وہ شیطان آسمان پر کی جرائی ہوئی اور اچکی ہوئی جس بات کو کاہنوں سے کہتا ہے فقط وہ بات تو سچی نکلتی ہے اور باقی سب جھوٹ علی ابن ابی طلحہ ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے آیت والشعراء یتبعھم الغاؤن کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ شعراء سے وہ کافر شاعر مراد ہیں جو جھوٹی تعریف اور مذمت میں دفتر کے دفتر سیاہ کرتے ہیں اور قبیلے کے مشرک ان جھوٹی باتوں کا اور مسلمانوں کو ہجو کا چرچا آپس میں پھیلاتے ہیں جس طرح کا ہنوں کو شیاطین جھوٹی باتوں میں مدد دیتے ہیں اسی طرح مشرک شاعروں کو بھی اسلام کی ہجو اور بتوں کی پھیلاتے ہیں جس طرح کا ہنوں کو شیاطین جھوٹی باتوں میں مد دیتے ہیں اسی طرح مشرک شاعروں کو بھی اسلام کی ہجو اور بتوں کی تعریف میں طرح طرح کے مضمون وسوسہ کے طور پر سوجھاتے تھے اس لیے شیاطینوں کے ذکر کے ساتھ کاہنوں اور شاعروں دونوں کا ذکر فرمایا جو اسلام سے پہلے مشرکوں کو آئندہ کی جھوٹی سچی خبریں بتلایا کرتے تھے ان کو کاہن کہتے تھے قتادہ ؓ نے افاک اثیم کی تفسیر کاہن بیان کی ہے مشرکین مکہ قرآن کی غیب کی باتوں کو کاہنوں کی سی خبریں اور قرآن کی فصاحت کو شاعر انہ فصاحت جانتے تھے اس لیے شروع رکوع میں قرآن شریف کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں کاہنوں اور شاعروں کا ذکر فرمایا کہ مشرکین مکہ کو قرآن شریف کی حالت اور کاہنوں شاعروں کی باتوں کی حالت اچھی طرح معلوم ہوجائے۔ (2 ؎ مشکوٰۃ باب التصاویر ص 385۔ ) 3 ؎ مشکوٰۃ ص 453 باب التوکل والصبر فصل تیسری۔ ) (1 ؎ مشکوۃ ص 392 باب الکہانتہ )
Top