Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 23
قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَؕ
قَالَ فِرْعَوْنُ : فرعون نے کہا وَمَا : اور کیا ہے رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
فرعون نے کہا کہ تمام جہان کا مالک کیا ؟
(23 تا 30) جب مدین سے مصر آتے وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی اور اس کی قوم کو ہدایت کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا۔ جس کا قصہ آگے سورة قصص میں آوے گا اور مدین کے سفر سے حضرت موسیٰ مصر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے موافق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں مل کر اللہ کا حکم پہنچانے کی غرض سے فرعون کے محل کے دروازہ پر گئے دستک دی دروازہ کے دربانوں نے پوچھا تم کون ہو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے جواب دیا ہم اللہ کے رسول اور قاصد ہیں اور فرعون کی ہدایت کو آئے ہیں فرعون کی قوم میں چار سو برس سے یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ وہ لوگ فرعون کو اپنا خدا جانتے تھے اس لیے دربانوں نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دیوانہ خیال کیا اور فرعون سے جاکر یہی کہا کوئی دو شخص دیوانے دروازے پر آئے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا رسول کہتے ہیں فرعون نے کہا اچھا ان کو بلا لو کوئی گھڑی ان دیوانوں سے مسخراپن کر کے دل بہلاویں گے پھر جب حضرت موسیٰ اور ہارون سے باتیں ہوئیں اور اس وقت فرعون نے تعجب سے یہ کہا کہ عالم کا پروردگار کون ہے جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ سوا فرعون کے اور کوئی عالم کا پروردگار نہیں چناچہ آگے آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے اس کے قول کی صراحت فرمائی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے اخیر کو کہا کہ تم اگر میرے سوا کسی اور کو معبود قرار دو گے تو میں تم کو قید کردوں گا غرض مفسر ابن سلف نے اس آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے جو بیان کی گئی سوا اس تفسیر کے مفسرین متاخرین نے تفسیر قرآنی میں علم مطلق کو دخل دے کر یہ جو کہا ہے کہ فرعون کا مطلب اس سوال سے یہ تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) فرعون کی خدا کی کچھ ماہیت اور اصلیت بتلاویں یہ قول قرآن شریف کے مطلب کے مخالف ہے قرآن شریف کی چند آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون خدا کے وجود کا منکر تھا اور لوگوں سے صاف کہتا تھا انا ربکم الاعلیٰ ۔ ماعلمت لکم من اللہ غیری پھر جو شخص کسی چیز کے موجود ہونے کا ہی منکر ہو وہ انکار چیز کی ماہیت اور اصلیت کیا پوچھے گا حاصل کلام یہ ہے کہ صحیح طریقہ قرآن کی تفسیر کا یوں ہے کہ اول تو قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی جاوے پھر حدیث صحیح سے پھر آثار صحابہ ؓ سے اس آیت کی تفسیر جب خود قرآن کی دوسری آیتوں میں موجود ہے تو قوائد عقلی کی مداخلت کی کیا ضرورت ہے فرعون کی بادشاہت کچھ دور دور تک نہیں تھی چناچہ ملک مصر میں فرعون کی بادشاہت تھی اور ملک شام عمالقہ کی حکومت اور بادشاہت تھی اسی واسطے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یوں قائل کیا کہ اتنے چھوٹے سے ملک کی بادشاہت اور حکومت پر تیرا خدائی کا دعویٰ بالکل غلط ہے خدا تو وہ ہے جس کی بادشاہت آسمان اور زمین میں مشرق سے مغرب تک ہے آسمان سے جب وہ چاہتا ہے مینہ برستا ہے نہیں تو قحط پڑجاتا ہے زمین مشرق سے مغرب تک بڑے بڑے بادشاہوں کو جب وہ چاہتا ہے بیمار ڈال دیتا ہے مار ڈالتا ہے تجھ سے پہلے جو تیرے بڑے بوڑھے مصر کے بادشاہ تھے اخیر وہ کہاں گئے اور ان کی بادشاہت تجھ کو کیوں کر مل گئی ‘ ان آنکھوں سے دکھائی دیتی ہوئی چیروں کے سمجھنے اور ان پر یقین لانے کی اگر تجھ کو اور تیرے درباریوں کو عقل ہے تو یہ ایسی باتیں ہیں کہ ان پر ہر عقلمند دھیان کر کر خدا کو پہچان سکتا ہے ‘ فرعونی لوگ ایک مدت سے فرعون کو خدا کہتے تھے اس لیے فرعون نے پہلے تو اپنے دربار کے فرعونیوں کو الا تسمعون کہہ کر ابھارا جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان درباری فرعونیوں کے دل میں یہ بات جم جاوے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان لوگوں کے بڑوں کے اور ان کے اعتقاد کے برخلاف ہے اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو باؤلا بتلا کر ان لوگوں کے دل سے موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کو نکال دینا چاہا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں ڈرایا کہ ان لوگوں کے ایک مدت کے اعتقاد کے برخلاف میرے سوا تم کسی کو خدا مانو گے تو میں تم کو قید کر دوں گا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ان باتوں کے جواب میں کوئی بات ایسی نہیں کہی تھی جس سے حق وناحق اچھی طرح کھل جاتا اس واسطے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے بےٹھکانے بکواس کا اتنا جواب دیا کہ اگر حق وناحق کی کھول دینے والی کوئی چیز میں دکھا دوں تو کیا پھر بھی ناانصانی سے تو مجھ کو قید کر دے گا صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب ہر شخص دنیا میں اسی کے موافق کام کرتا ہے اور وہی کام اس کو اچھے نظر آتے ہیں اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو ایسی باتوں سے قائل کیا تھا جو آنکھوں سے دکھائی دیتے ہوئے موٹی موٹی باتیں تھیں مگر علم الٰہی میں فرعون اور اس کے ساتھی دوزخ کے قابل ٹھہر چکے تھے اس لیے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ان سچی باتوں کو بےٹھکانے بکواس سے اڑا دیا اور اس کے ساتھی بھی اس کے بہکانے بہک گئے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر فصل اول )
Top