Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 49
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ۚ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ١ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ؕ۬ لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ
قَالَ : (فرعون) نے کہا اٰمَنْتُمْ لَهٗ : تم ایمان لائے اس پر قَبْلَ : پہلے اَنْ : کہ میں اٰذَنَ : اجازت دوں لَكُمْ : تمہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكَبِيْرُكُمُ : البتہ بڑا ہے تمہارا الَّذِيْ : جس نے عَلَّمَكُمُ : سکھایا ت میں السِّحْرَ : جادو فَلَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے لَاُقَطِّعَنَّ : البتہ میں ضرور کاٹ ڈالوں گا اَيْدِيَكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَرْجُلَكُمْ : اور تمہارے پاؤں مِّنْ : سے۔ کے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے خلاف کا وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ : اور ضرور تمہیں سولی دوں گا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
(فرعون نے) کہا کیا اس سے پہلے کہ میں تم کو اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے بیشک یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے سو عنقریب تم (اس کا انجام) معلوم کرلو گے کہ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں اطراف مخالف سے کٹوا دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا
(49 تا 51) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر جب جادوگر لوگ سجدہ میں گر پڑے اور ایمان لے آئے اس وقت فرعون نے ان کو یوں ڈرایا تھا کہ تمہارے اس جرم کی جو سزا تجویز کی جائے گی وہ تم کو معلوم ہوجائے گی اب وہ سزا کا حکم سنایا اور کہا کہ پہلے میں تمہارا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف پیر کاٹوں گا اور پھر تم کو سولی پر چڑھاؤں گا ‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ خاص ایک نئی سزا تھی جو فرعون نے نکالی تھی کہ جس پر خفا ہوتا تھا اس کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹا کرتا تھا مفسرین سلف کا اس باب میں اختلاف ہے کہ فرعون نے جس سزا کا ڈراوا جادوگروں کو دیا تھا وہ سزا فرعون ان کو دے بھی سکا یا نہیں اگرچہ تفسیر ابن ابی حاتم میں عکرمہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے اپنے وعدہ کے موافق ان جادوگروں کو سزا دی کیونکہ اسی روایت میں یہ ہے کہ صبح کو وہ جادوگر تھے اور شام کو شہید ہوئے اب یہ ظاہر بات ہے کہ فرعون اگر ان کو سزا نہ دیتا تو شام کو وہ شہید کیونکر ہوجاتے لیکن سورة قصص میں آوے گا ‘ انتماو من اتبعکما الغالبون جس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر فرعون کا کسی طرح غلبہ نہیں ہوسکا اس سے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ جادوگر شریعت موسوی کے تابع اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے ساتھی بن گئے تو اس کے بعد فرعون اپنی دھمکی پر کچھ عمل نہیں کرسکا فرعون کی دھمکی کا جواب جادوگروں نے جو دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ جب اس میدان بھر کی بھیڑ میں سے ہم سب سے اول اللہ کی وحدانیت کے قائل ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ نادانی سے اتنے دنوں تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور قصور واری میں جو ہم نے عمر گزاری ہے اس وحدانیت کے طفیل سے وہ ہماری پچھلی تقصیریں معاف ہوجاویں گی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت حضرت علی ؓ کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے اس کو ان آیتوں کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ جادوگر لوگ علم الٰہی میں جنتی قرار پاچکے تھے اس لیے آخری عمر میں ان کو ویسے ہی کام بھی اچھے نظر آئے۔
Top