Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 5
وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا يَاْتِيْهِمْ : نہیں آتی ان کے پاس مِّنْ ذِكْرٍ : کوئی نصیحت مِّنَ : (طرف) سے الرَّحْمٰنِ : رحمن مُحْدَثٍ : نئی اِلَّا : مگر كَانُوْا : ہوجاتے ہیں وہ عَنْهُ : اس سے مُعْرِضِيْنَ : روگردان
اور ان کے پاس (خدائے) رحمن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
(5) اس آیت سے فرقہ معتزلی 2 ؎ نے یہ مطلب جو نکالا ہے کہ قرآن شریف مخلوقات کے کلام کی طرح ایک نو پیدا چیز ہے جس کو حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے انبیاء کو پہنچا دیا یہ مطلب ان کا بالکل غلط ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور مخلوقات کے کلام میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا کس واسطے کہ آخر بندوں میں بھی قوت کلام کرنے کی اللہ نے ہی پیدا کی ہے پھر انسان اور پیڑ میں اس وقت کا پیدا کرنا برابر ہے حالانکہ مشرکین مکہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ اس سبب سے کافر فرمایا ہے کہ وہ لوگ قرآن کو بشر کا کلام کہتے تھے بلکہ اہل سنت اور تمام سلف کا مذہب قرآن شریف کے باب میں یہ ہے کہ قرآن شریف قدیم اور خاص اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اللہ تعالیٰ سے یہی الفاظ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے سنے اور اللہ کے حکم سے آنحضرت ﷺ کو وہی الفاظ جبرئیل (علیہ السلام) کی معرفت پہنچے اور آنحضرت کی معرفت امت کے لوگوں کو پہنچے اب جو لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں یہ آواز تو التبہ لوگوں کی ہے مگر کلام اللہ کا ہے جس طرح کوئی چوبدار لفظ کسی بادشاہ کا کوئی حکم لوگوں کو سنائے تو آواز چوبدار کی کہلائے گی اور حکم بادشاہ کا کہلاوے گا۔ مسند امام احمد ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں معتبر سند سے جابر ؓ کی یہ حدیث کہ موسم حج پر آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے یہ فرمایا کہ میں اللہ کا کلام لوگوں کو سناتا ہوں اور سوا اس کے بہت سی آیتیں اور حدیثیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ قرآن شریف اللہ کا فرمایا ہوا کلام ہے غرض ان گمراہ فرقوں نے یہ جو کہا ہے کہ اللہ کے کلام کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں بولنے کی قوت پیدا کردیتا ہے یا یہ کہ قرآن شریف کلام تو حضرت جبرئیل کا ہے لیکن مطلب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک میں تھا۔ یہ سب غلط مذہب ہیں اور اہل سنت نے بڑی تفصیل سے ان غلط مذہبوں کو نامعتبر ٹھہرایا ہے اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہیں کہ مشرکوں پر جو حکم نیا اترتا ہے وہ اس سے منہ پھیرتے ہیں یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ کا کلام نیا اور نو پیدا ہے بلکہ اللہ کا کلام قدیم ہے جن پر اترتا ہے ان کو نیا ہے جس طرح کوئی شخص مثلا دہلی کی جامع مسجد کو آج دیکھے تو اس کے دیکھنے کے حساب سے یہ کہا جاوے گا کہ اس نے ایسی نئی مسجد آج دیکھی ہے کہ عمر بھر کبھی نہیں دیکھی تھی اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جامع مسجد شاہجہان نے آج نئی بنائی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ہزار گیارہ سو برس سے اہل سنت اور مخالف فرقوں کی بحث اس مسئلہ میں اور صفات الٰہی کے مسئلوں میں چلی آتی ہے صدہا کتابیں خاص اس مسئلہ کے باب میں تصنیف ہوئیں جعد بن ورہم اس مسئلہ کا ایجاد کرنے والا ہشام بن عبدالملک کی خلافت میں خالد حاکم عراق کے ہاتھ سے اسی مسئلہ کی ایجاد کی تفصیل پر قتل ہوا تفصیل اس مسئلہ کی حدیث کی شرح کی کتابوں میں 1 ؎ ہے مختصر طور پر اس مسئلہ کا ذکر اس خیال سے کردیا گیا ہے کہ تفسیر کشاف 2 ؎ اور اس قسم کی تفسیروں کو دیکھ کر کوئی مسلمان دھوکے میں نہ پڑجاوے صحیح بخاری ومسلم 3 ؎ میں عدی بن حاتم سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن حساب و کتاب کے وقت اللہ تعالیٰ ہر شخص سے بلا واسطہ کلام کرے گا اس صحیح حدیث سے فرقہ معتزلی کا وہ اعتقاد کسی طرح سے صحیح نہیں قرار پاسکتا کہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات میں بولنے کی صفت نہیں ہے کیونکہ جب اس حدیث میں واسطہ کو اڑا دیا گیا ہے تو پھر لوح محفوظ یا پیڑ یا اور کسی چیز کا واسطہ کہاں سے آسکتا ہے۔ (2 ؎ دوسری صدی ہجری کا ایک بدعتی اور گمراہ فرقہ جس کا امام احمد بن جنبل (رح) وغیرہ محدثین نے ہر طریقے سے مقا بلکہ کیا (ع ‘ ح۔ ) (1 ؎ مثلا فتح الباری ص 770 ج 6 طبح دہلی۔ ) (2 ؎ محمود جاز اللہ مخشری زمتوفی 528 ھ کی مشہور تفسیر (ع ‘ ح ) ( 3 ؎ مشکوٰۃ باب الحساب والقصاص والمیزن فصل اول )
Top