Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور بےانصافی اور غرور سے ان سے انکار کیا کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے سو دیکھ لو کہ فسان کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا
14۔ فرعون کے زمانہ کے بڑے بڑے جادوگر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ نہ کرسکے اور حضرت موسیٰ کے مقابلہ سے عاجز آن کر آخر کو مسلمان ہوگئے تو فرعون کے ساتھ کے لوگ اپنے دل میں یہ سمجھ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کا معاملہ بناوٹی اور جادو کا نہیں ہے کیونکہ اگر حضرت موسیٰ کا معاملہ بناوٹی اور جادو کا ہوتا تو اس طرح کے جادو گر جن کے باپ دادا سے جادو کا پیشہ چلا آتا تھا اسی کام کی تنخواہ اور جاگیر فرعون کی طرف سے ان کی مقرر تھی وہ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) سے عاجز نہ ہوتے لیکن باوجود اس بات کے دل میں سمجھ جانے کے وہ لوگ ظاہر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے اور انجام یہ ہوا کہ غرق ہو کر سب غارت ہوگئے یہی حال قریش کا تھا کہ بارہ تیرہ برس آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے مکہ میں رہنے اور طرح طرح کے معجزہ دیکھنے سے ان کے دلوں کو تو یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ آنحضرت ﷺ سچے نبی ہیں کیونکہ ان کے جتنے کام ہیں وہ بغیر تائید یعنی کے ممکن نہیں لیکن باوجود اس بات کے دل میں سمجھ جانے کے قریش بھی شیطان کے بہکاوے سے ظاہر میں ایمان نہ لاتے تھے اس لیے قریش کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ بیان فرما کر سمجھا دیا کہ یہ ضروری فہمایش طے ہوجانے کے بعد اگر یہ لوگ نبی وقت کی اطاعت قبول نہ کریں گے تو اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو انجام فرعون اور اس کا قوم کا ہوا اللہ کا وعدہ سچا ہے آخر وہی انجام ہوا کہ قریش میں سے جو لوگ ایمان نہ لائے وہ دنیا میں طرح طرح کی خواری سے ہلاک ہوئے اور عاقبت کا عذاب جدا اپنے سر لیا غرض ہر شخص کی نجات کی صورت اس میں ہے کہ ہر طرح ہر حال میں اللہ کے رسول کی اطاعت قبول کرے ورنہ دین و دنیا میں خوار ہوگا صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوٰۃ باب الا عتصام بالکتاب والنسۃ فصل اول ‘ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے لیکن وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس نے میری اطاعت سے کسی قدر بھی انکار کیا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک طرح کا انکار تو کفر ہے وہ یہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم اللہ کے رسول لائے ہیں اس کو سرے سے کوئی شخص سچا رسول جانے ہی نہیں یہ انکار تو کفار کی عادت ہے کلمہ گو لوگوں میں اگرچہ یہ عادت تو نہیں ہے لیکن جو شخص کلمہ گو ہو کر رسول وقت کے قول کی مخالف کسی رسم دنیایا کسی خواہش نفسانی پر چلے گا وہ بھی رسول وقت کا پورا اطاعت گزار نہیں کہلا سکتا اور آپ نے فرمایا ہے کہ اس طرح کا شخص پورا مسلمان نہیں ہے امام نووی نے اربعین میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی صحیح روایت 2 ؎ سے جو حدیث روایت کی ہے (2 ؎ ایضا فصل دوسری۔ ) اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں کہلا سکتا جب تک اپنی ہر طرح کی خواہش دلی کو اللہ کے احکام شریعت کے مقابلہ میں نہ چھوڑ دے جن احکام کو میں اللہ تعالیٰ کے طرف سے لایا ہوں حاصل معنی حدیث کے یہ ہیں کہ شریعت کے حکم کے آگے اور کوئی امر قابل اطاعت نہیں ہے حکم شرعی کے مخالف جو شخص کسی امر کی اطاعت کرے گا وہ اسی امر کا اطاعت گزار کہلاوے گا شریعت کا اطاعت گزرا نہیں کہلا سکتا اور جو شخص شریعت کا اطاعت گزار نہ ہو وہ ایماندار کیوں کر کہلا سکتا ہے
Top