Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
(خط سنا کر) کہنے لگی کہ اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو (اور اصلاح نہ دو ) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
(32 تا 43) جس وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط بلقیس نے پڑھا تو اس کو یہ تردد ہوا کہ اب کیا کیا جاوے آیا جس طرح اس خط میں لکھا ہے وہی کیا جاوے کہ اپنی حکومت کو چھوڑ کر اور اپنے دین سے ہاتھ اٹھا کر حضرت سلیمان کا دین اور ان کی اطاعت قبول کی جائے یا حضرت سلیمان سے مقابلہ کیا جاوے اسی تردد کے رفع کی شکل نکالنے کے لیے اس نے اپنے مشیروں اور فوج کے افسروں سے صلاح کی تفسیر سدی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ صلاح مشورہ کے بعد بلقیس نے اپنی ریاست کے لوگوں سے یہ کہا کہ میں اس خط کے جواب میں حضرت سلیمان کے پاس کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اگر انہوں نے وہ تحفہ قبول کرلیا تو جان لینا کہ دنیا کے بادشاہوں میں سے وہ بھی ایک بادشاہ ہیں اس صورت میں ان کا مقابلہ کرنا کچھ بڑی بات نہیں ہے اور اگر انہوں نے وہ تحفہ نہ لیا تو جان لینا وہ اللہ کے نبی ہیں اس صورت میں ان سے مقابلہ ممکن نہیں ہے اب یہاں مفسرین نے اس تحفہ کی تفصیل بہت کچھ بیان کی ہے جو بلقیس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھیجا تھا اور اس تفصیل میں بہت اختلاف بھی کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تحفہ کی تفصیل کسی صحیح روایت میں نہیں ہے جو کچھ روایتیں اس تحفہ کی تفصیل میں ہیں بنی اسرائیلی روایتیں ہیں قابل اعتبار اس قدر بات ہے ایلچی سے تحفہ واپس کر کے یہ فرما دیا کہ اب ایسے لشکر سے تم لوگوں پر چڑھائی کی جاتی ہے جس لشکر کی ٹکر سنبھالنی تمہیں مشکل ہے بلقیس کے کلام میں وکذلک یفعلون اللہ تعالیٰ نے بلقیس کے کلام کی تصدیق کے طور پر بڑھایا ہے سیرۃ ابن اسحاق میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ جب ایلچی حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پیغام کہلا بھیجا کہ میں اپنے چند سرداروں کو لے کر آپ کی خدمت میں آتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ آپ کا دین کیا ہے جس دین کو آپ اوروں کے لیے بھی پسند فرماتے ہیں اور اس پیغام کے بعد اپنی روانگی کا انتظام کیا اور اپنی بادشاہت کے تخت کو جس کا ذکر ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کیا تھا بڑے احتیاط کے ساتھ قافلوں کے اندر رکھوایا اور دس ہزار سردار اور بہت بڑی فوج لے کر خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملنے کو روانہ ہوئی ابن اسحاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ تخت بہت بیش قیمت تھا اور بڑے بڑے قیمتی جواہرات اور موتی اس میں جڑے ہوئے تھے اب اس تخت کو بلقیس کے پہنچے سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو اپنے پاس منگوالیا اور اس کے جواہرات کو جگہ بدل کر سفید کی جگہ سرخ کو اور سرخ کی جگہ سفید کو جڑوا دیا اور بلقیس کے آنے کے بعد سلمان ( علیہ السلام) نے اپنا معجزہ ظاہر کرنے کی غرض سے بلقیس سے پوچھا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے اور بلقیس نے اس معجزہ کو دیکھ کر فورا اسلام قبول کیا اس کا ذکر آگے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے فرمایا ہے۔
Top