Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 70
وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ
وَ : اور لَا تَحْزَنْ : تم غم نہ کھاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا تَكُنْ : اور آپ نہ ہوں فِيْ ضَيْقٍ : تنگی میں مِّمَّا : اس سے جو يَمْكُرُوْنَ : وہ مکر کرتے ہیں
اور ان (کے حال) پر غم نہ کرنا اور نہ ان چالوں سے جو یہ کر رہے ہیں دل تنگ ہونا
70 تا 73۔ اوپر کی آیتوں میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قریش کو سمجھایا اسی طرح تیرہ برس کے قریب تک مکہ میں قرآن شریف نازل ہوتا رہا اور طرح طرح کی نصیحت کی آیتیں نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے قریش کو سمجھایا مگر باوجو اس قدر مدت اور اس قدر فرمائش کے آنحضرت ﷺ کے مکہ سے ہجرت فرمانے کے وقت تک ان میں سے ایک سو کے اندر ہی اندر آدمی اسلام لائے باقی اہل مکہ آپ کو ایذار سانی پر ہر طرح سے آمادہ رہے اور ایذار سانی کی شکلیں نکالنے میں طرح طرح کے اور داؤں سوچتے اور نکالتے رہے موسم حج پر باہر کے لوگ جو کچھ آپ کی نصیحت دھیان سے سنتے تو ان کو بہ کا دیتے کبھی کہتے کہ جو ہم چاہیں تو اس طرح کا قرآن بناسکتے ہیں جب آپ نماز پڑھتے تو سیٹیاں اور تالیاں بجاتے غرض آخر ہجرت کے وقت تک اہل مکہ کا یہی حال رہا یعنی ہجرت کے وقت جو کچھ انوں نے کیا اس کا تذکرہ انفال میں گزر چکا ہے کہ سب مخالفوں نے جمع ہو کر آپ کی ایذار سانی کا مشورہ کیا بعضوں نے کہا کہ آپ کو قید کرنا چاہیے بعضوں نے کہا کہ جان سے ہلاک کرنا چاہیے بعضوں نے کہا مکہ سے نکال دینا چاہیے شیطان بھی اس مشورہ میں شامل ہوا اور شیطان کے مشورہ کے موافق ابوجہل کے اس منصوبے پر سب کا اتفاق ٹھہرا کہ مکہ میں جتنے قبیلے اور جتھے ہیں ان سب میں کا ایک ایک آدمی تلوار لے کر مستعد ہو اور ایک دم سب مل کر آپ پر حملہ کردیں یہ تجویز اس لیے ٹھہرائی تھی کہ پھر سارے مکہ کے قبیلوں سے آپ کے ساتھیوں کو بدلا لینے کا بھی قابو باقی نہ رہے کفار کے اس مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم دیا اور عزت حرمت سے اپنے رسول کو مدینہ پہنچا دیا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ کی قدرت اور تدبیر کے آگے کوئی داؤ اور قریب ان لوگوں کا اللہ کے رسول پر چل تو نہیں سکا لیکن ان لوگوں کی ایذار سانی اور راہ راست پر نہ آنے کا حال دیکھ کر جب تک آپ مکہ میں رہے آپ کو ہیمشہ ایک طرح کا غم اور رنج رہتا تھا آپ کے اس رنج کے رفع فرمانے کی غرض سے مکہ میں جو قرآن شریف کا حصہ اترا ہے اس حصہ میں اکثر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تشفی اور تسکین کی آیتیں نازل فرمائی ہیں یہ آیت بھی انہی آیتوں میں کی ایک آیت ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تشفی اور تسکین فرما کر پھر آگے کی آیتوں میں قریش کو دھمکایا ہے کہ اللہ کے رسول کو جھٹلا کر اور طرح طرح کی ایذا دے کر یہ لوگ عذاب الٰہی کی جلدی جو کرتے ہیں یہ ان کی نادانی ہے کہ باوجد ایسی شرارتوں کے پھر عذاب کی بھی لدی کرتے ہیں ان کو کیا معلوم ہے کہ عاب کا وقت قریب آن لگا ہو یہ فقط اللہ کا فضل اور برد باری ہے کہ اس قدر شرارتوں پر ان کو چھوڑ رکھا ہے کسی سخت عذاب میں ان کو انہیں پکڑ تا اللہ کے بردباری کا شکر نہیں کرتے اور نہیں سمجھتے کہ عذاب کا وقت مقررہ آجائے گا تو ان کو جان کا بچانا دشوار ہوگا اللہ کا وعدہ سچا ہے جب بدر کی لڑائی کے وقت قریش کی ہلاکت کی گھڑی آن پہنچی تو دم کے دم میں ستر 70 آدمی قریش میں کے مارگئے اسی دن سے قریش کی سرکشی بنیاد اکھڑ گئی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر صاحب حکم اور بردوبار کون ہوسکتا ہے مشرک لوگ شرک کر رتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تندرستی اور خوش حال سے رکھتا ہے غرض تشرہ برس تک اللہ تعالیٰ نے حلم اور بردباری کو کام فرمایا جب قریش کی سرکشی کم نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے کئے کو بھگتا اب بھی جو کوئی اللہ کے رسول کی فرما نبرداری نہ کرے گا پشیمانی بھگتے گا فرق اس زمانے میں اور اس زمانہ میں اتنا ہے کہ اس زمانہ میں اللہ کے رسول خود موجود تھے اب ان کا کلام موجود ہے فرما نبرداری رسول کے کلام اور حکم کی جس طرح جب تھی وہ اب بھی ہے اور قیامت تک رہے گی
Top