Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان کے بارے میں (عذاب کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بیان کردے گا اس لئے کہ لوگ ہماری آیتوں کی پر ایمان نہیں لاتے تھے
82۔ اس جانور کا قیامت کے قریب نکلنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کا ہونا اس قدر تفسیر اس آیت کی بہت صحیح حدیثوں میں آئی ہے چناچہ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث 2 ؎ ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تک دس نشانیاں لوگوں کو نظر نہ آویں گی اس وقت تک قیامت نہ آوے گی ان دس نشانیوں میں جانور کی بھی ذکر ہے اور اسی حدیث کی روایت ترمذی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے دوسری حدیث صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ہے اس میں بھی اس جانور کا ذکر ہے تیسری حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ و کی صحیح مسلم کی روایت میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت آفتاب مغرب سے نکلے گا اسی وقت میں یہ جانور بھی نکلنے کا قول حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ہے اور امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ اکثر مفسروں نے اس قول کی قوی قرار دیا ہے معتبر 3 ؎ سند سے ترمذی مسند امام احمد ابن ماجہ مستدرک حاکم بیہقی تفسیر ابن منذر تفسیر ابن جریر تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ حانور جب نکلے گا تو اس کے پاس حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا عصا اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی انگوٹھی یہ دونوں چیزیں ہوں گی مسلمانوں کے منہ کو وہ جانور انگوٹھی چھوادے گن جس سے ان کے چہرہ پر ایک طرح کی رونق آجائے گی اور جو لوگ پورے مسلمان نہیں ہیں ان کے ناک پر حضرت موسیٰ کے عصا سے ایک چھاپہ لگا دے گا اس روز سے مسلمان اور کافر کی ایسی پہچان ہوجائے گی کہ ایک دستر خوان پر جتنے لوگ ہوں گے وہ سب پہچانے جائیں گے حذیفہ ؓ بن اسید کی ایک حدیث مستدرک حاکم اور بیہقی اور تفسیر ابن منذر میں ہے جس کو حاکم نے صحیح کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ جانور تین دفعہ دنیا میں نکلے گا اور قرآن شریف میں یہ جو ہے کہ لوگوں پر جب ایک بات پڑچکے گی اس وقت یہ جانور نکلے گا اس کی تفسیر اور مفسرین متقدمین نے جو کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب مغرب سے آفتاب نکل چکے گا اور کافر کا ایمان اور گنہگار کی توبہ قبول ہونے کا موقع نہ رہے گا اس وقت یہ جانور نکلے گا صحیح مسلم کی عبداللہ بن عمر ؓ و کی یہ حدیث جو اوپر گزر چکی ہے کہ مغرب سے آفتاب کے نکلنے اور اس جانور کے نکلنے کا ایک ہی زمانہ ہوگا اس حدیث سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے عطاخر اسانی کے قول کے موافق وہ جانور اس وقت کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق یہی کہے گا ان الناس کانوابا یتنا لا یوقنون جس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب سے آفتاب کے نکلنے سے اور اس جانور کے پیدا ہوجانے سے پہلے جو منکر لوگ راہ راست پر نہیں آئے اور جن گنگاروں نے توبہ نہیں کی وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کے سبب سے گویا یہ جانور ایسے لوگوں کے حال پر افسوس کرے گا یہ عطاء خراسانی اعمش کے طبقہ تابعی اور صحیح مسلم کے راویوں میں ہیں۔ (2 ؎ مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال۔ ) (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 116 ج 5۔ )
Top