Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : کسی نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ : بہتر مِّنْهَا : اس سے وَهُمْ : اور وہ مِّنْ فَزَعٍ : گھبراہٹ سے يَّوْمَئِذٍ : اس دن اٰمِنُوْنَ : محفوظ ہوں گے
جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لئے اس سے بہتر (بدلہ تیار) ہے اور ایسے لوگ (اس روز) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے
89 تا 90۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے صور کے پھونکنے کا ذکر فرمایا تھا اگرچہ اس بات میں علماء نے بڑا اختلاف کیا ہے کہ صور کتنی دفع پھونکا جائے گا مگر صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر 20 والعاص ؓ کی حدیث 3 ؎ سے معلوم ہوتا ہے کہ صور فقط دو دفع ہی پھونکا جاوے گا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو ہلاک کر چکیں گے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ گزر چکے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوجائے گی تو اس کے بعد شام کے ملک کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چل کر جن کے دل میں ذدرہ برابر بھی ایمان ہے اس طرح کے سب لوگ اس ہوا کے اثر سے مرچکیں گے اور شیطان کے بہکانے سے دنیا میں پھر پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح بت پرستی کی زور ہوجائے گا اس وقت پہلا صور پھونکا جائے گا شروع شروع اس صور کی آواز سے لوگوں کے دلوں میں ایک گھبراہٹ پیدا ہوگی اور اس صور کی شروع کی آواز سے زمین کو حرکت ہو کر ایک زلزلہ بھی آوے گا پھر صور کی آواز بڑھتے بڑھتے زمین آسمان سب دنیا فنا ہوجائے گی مسند امام احمد ابوداؤد ونسائی صحیح ابن خزیمہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں اوس ؓ بن ثقفی کی روایت 4 ؎ ہے جس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا 5 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جمعہ کے دن آپ نے فرمایا کہ صور پھونکا جائے گا حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے صور کی دو حالتیں ہوں گی اس کی شروع آواز سے لوگ گھبرائیں گی اور بےہوش ہوجائیں گے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی آواز ایسی سخت ہوجائے گی جس سے پہاڑ زمین آسمان سب دنیا فنا ہوجائے گی پہلی حالت کا نام نفخہ فزع ہے اور دوسری حالت کا نام نفخہ صعقہ اور دوسرا صور وہ ہے جس سے تمام دنیا پھر جی اٹھے گی اس کا نام نفخہ قیام ہے جن مفسروں نے تین صور پھونکے جانے کا ذکر اپنی تفسیروں میں لکھا ہے اگر ان کا مطلب اس سے یہی ہے کہ پہلے صور کی حالتیں دو صور کے قائم مقام ہیں تو یہ مطلب صحیح ہے اور اگر یہ مطلب ہے کہ صور خودتین دفعہ پھونکے جاویں گے تو تین صور کی روایت ضعیف ہے غرض اوپر کی آیتوں میں صور کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں نیکی بدی اور نیکی کرنے والوں کی امن میں رہنے کا اور بدی کرنے والوں کا خرابی میں پھنسنے کا ذکر جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں دونوں صور کا ذکر ہے گھبراہٹ اور پہاڑوں کی بادلوں کی طرح چلنا پہلے صور کی حالت کے بیان میں ہے اور مخلوقات کا عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا اور نیکی بدی کا نتیجہ دوسرے صور کی حالت کا بیان ہے بعضے مفسروں نے یہ ایک شبہ بھی یہاں پیدا کیا ہے کہ ان آیتوں میں پہلے تو فرمایا ہے کہ جب صور پھونکا جاوے گا تو اہل آسمان اور زمین سب گھبرا جاویں گے اور پھر فرمایا کہ نیک لوگ اس دن امن میں رہیں گے ان دونوں آیتوں میں مطابقت کیوں کر ہے اس کا جواب مفسرین نے یہ دیا ہے کہ پہلے پہل تو قیامت کا خوف سب کو ہوگا لیکن پھر میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت 1 ؎ سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تنہائی میں بعضے گنہگار مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ یاد دلاوے گا جب وہ ڈریں گے کہ ان کی پکڑ ہوئی تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرماوے گا اور کافر اور منافقوں پر سب کے سامنے لعنت فرماوے گا مسند امام احمد صحیح بخاری ومسلم اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے حدیث 2 ؎ قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک اور زیادہ نیک نیتی کی نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ دیا جائے گا یہ حدیث فلہ خیر منھا کی گویا تفسیر ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی میں اسن بن مالک ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے روایتیں 3 ؎ ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ حشر کے منکر لوگ اس دن منہ کے بل گھسیٹے جاکر دوزخ میں جھونکے جاویں گے یہ روایتیں فکبت وجوھم فی النار کی گویا تفسیر ہے۔
Top