بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
سورة قصص 2 تا 2۔ حروف مقطعات کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اب آگے حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ بیان فرمایا مُبِیْن کے مُبِیْن حق اور ناحق کو کرنے کے ہیں لقوم یؤمنون میں ایمان والوں کو اس واسطے خاص کیا کہ انہیں کو قرآن کی نصیحت فائدہ کرتی ہے علا کے معنی تکبر کے ہیں اور بعضے مفسرین کا قول ہے کہ علا سے مطلب ہے کہ فرعون نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا فرعون نے مصر کے رہنے والوں کو کئی فرقے کرنے کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ ایک جماعت کو فرعون نے غلام بنایا تھا اور ایک جماعت کو قتل کرتا تھا غرض فرعون نے بنی اسرائیل کو ہر طرح سے کمزور اور ضعیف کر رکہا تھا اور ان سے ذلیل کام لیتا تھا بنی اسرائیل اپنے زمانہ کے لوگوں میں سربر آور وہ تھے انہوں نے لوگوں پر ظلم کیا اور گناہ کے کام کئے اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قبطیوں کو ان کے اوپر مسلط کردیا انہوں نے ان کو کمزور کردیا اور طرح طرح کی ان کو تکلیفیں دیں یہاں تک کہ فرعون ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے خباب ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی 1 ؎ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ شکایت کی کہ مشرک ہم لوگوں کو اب تو بہت ستاتے ہیں آپ نے خباب ؓ کی تسکین فرمائی اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ایسی مدد کرے گا کہ اہل اسلام کو مشرکین کے خوف کا کچھ اندیشہ باقی نہ رہے گا۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح فرعون بنی اسرائیل کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتا تھا اسی طرح ہجرت سے پہلے مشرکین اور مسلمانوں کا حال آخر میں ہوا چناچہ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کو مشرکوں پر غلبہ ہوا اس کا قصہ صحیح بخاری کی عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے اوپر گزر 2 ؎ ہے خباب بن الارت ؓ کی اوپر کی حدیث سے آنحضرت ﷺ کا یہ معجزہ بھی نکلتا ہے کہ فتح مکہ سے ایک مدت پہلے جس طرح آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ایسی مدد کرے گا کہ اہل اسلام کو مشرکوں کے خوف کا کچھ اندیشہ باقی نہ رہے گا فتح مکہ کے بعد بالکل اس کے موافق ظہور ہوا۔ (1 ؎ ص 276 ج 3 وص 91 ج 4۔ ) (2 ؎ ص 60 ج 4 تفسیر ہذا۔ )
Top