Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عنایت کیا اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
14 تا 26۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نابالغی اور بچپن کا حال بیان کردیا تو فرمایا کہ جب وہ جوانی کو پہنچ گئے اور دشمن کے گھر پرورش پاکر سب طرح سنبھل گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم اور سمجھ دونوں عنایت کئے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر سے نکل کر مدین میں پہنچنے کا سبب بیان فرمایا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) مصر کے بازار میں تھے کہ انہوں نے دو شخصوں کو لڑتے ہوئے دیکھا جن میں ایک ان کے گروہ میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حین غفلۃ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ دوپہر کا وقت تھا اسرائیل نے فریاد کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعونی کے ایک گھونسا مارا جس سے وہ فرعونی مرگیا تو فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ شیطانی کام ہے۔ وہ کھلا دشمن ہے بہکانے والا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کی کہ اے رب میرے، ظلم کیا میں نے اپنی جان پر پس بخشش کر میرے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ چوک بخش دی کہ وہ بڑا بخشش کرنے والا مہربان ہے موسیٰ (علیہ السلام) کا ارادہ اس قبطی کے مار ڈالنے کا نہ تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے مرنے کے بعد پچھتائے اور اس کو ریت میں دفن کردیا اور اپنے اس قصور پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ہمیشہ پشیمان رہے یہاں تک کہ قیامت کے روز جب لوگ ان سے شفاعت کرانا چاہنگے تو وہ فرمائیں گے اِنِّی قَتَلْتُ نَفْسًا لَّمْ اُوْمَرْ بِقَتْلِھَا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے ایک جان کو قتل کر ڈالا جس کا مجھ کو حکم نہ تھا یہ ٹکڑا شفاعت والی حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث 1 ؎ سے ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اسرائیلی مظلوم کی یہ مدد کی تھی کہ اس سے اس کے ظالم دشمن کو دفع کیا تھا لیکن اتفاق سے وہ قبطی مرگیا غرضیکہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو مار ڈالا تو صبح کے وقت راہ دیکھتے اٹھے کہ مقتول کے وارث فرعون کے پاس فریادی گئے ہوں گے دیکھا چاہئے کہ کس کے اوپر خون ثابت ہوا بھی تک یہ بات پوشیدہ تھی کہ کس نے مارا کہ ناگہاں وہی شخص جس کی مدد میں موسیٰ (علیہ السلام) نے کل فرعونی کو مارا تھا دوسرے فرعونی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا جب حضرت موسیٰ اس پر سے گذرے تو پھر اس نے فریاد کی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے خفا ہو کر اس سے کہا کہ تو تو صریح بےراہ ہے کہ ہر روز ہر ایک سے الجھتا ہے اور مجھے لڑواتا ہے پھر جب اس ظالم پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ ڈالنا چاہا تو مظلوم نے جانا کہ مجھے مارنا چاہتے ہیں کیوں کہ مجھ ہی پر خفا ہوئے ہیں اور اپنے بچانے کے واسطے کہتے لگا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) تم چاہتے ہو کہ جس طرح تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا اسی طرح مجھ کو بھی آج مار ڈالو اس سے پیشتر پہلے روز کا معاملہ سوائے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور اس اسرائیلی کے کوئی اور نہیں جانتا تھا فرعونی نے قتل کیا ہے فرعون بہت غضبناک ہوا اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے مارنے کا ارادہ کیا اور کئی پیادے مقرر کئے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو تلاش کر کے لاویں ‘ اتنے میں پیادوں کے آنے سے پہلے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے آن کر کہا کہ اے موسیٰ ( علیہ السلام) تم اس شہر سے کہیں اور چلے جاؤ فرعونی لوگ تمہارے مارنے کی صلاح کر رہے ہیں میں تمہارا خیر خواہ ہوں اس لیے میں نے تم کو یہ خبر دی ہے اس شخص کا نام حزقیل تھا فرعون کے لوگوں میں سے یہی مسلمان تھا اقصی المدینہ شہر کے دوسرے کنارے کو کہتے ہی مطلب یہ ہے کہ وہ اتنا تیز آیا اور نزدیک کا راستہ اختیار کیا کہ فرعون کے سپاہی سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) تک پہنچ گیا اور ان کو فرعون کے ارادہ سے آگاہ کردیا اس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تنہا شہر سے باہر نکلے اور اس سے پیشتر انہوں نے کبھی سفر نہیں کیا تھا اتنی عمر عیش و عشرت میں گذاری تھی ڈرتے ہوئے شہر سے نکلے بعضے مفسروں نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ گھوڑے پر سوار بھیجا اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو راستہ بتایا غرضیکہ مدین کی طرف متوجہ ہو کر کہا مجھ کو امید ہے کہ میرا پروردگار مجھ کو سیدھے راستہ پر لے جاوے جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور دو عورتیں اپنی بکریوں کو رو کے ہوئے الگ کھڑی ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں سے پوچھا کہ تم کیوں نہیں ان کے ساتھ اپنی بکریوں کو پانی پلاتیں انہوں نے کہا کہ جب یہ لوگ فارغ ہو کر چلے جائیں گے تو ان کا بچا ہوا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلاویں گے کیونکہ ہم خود تو پانی کا ڈول کھینچ نہیں سکتے اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں معتبر سند سے مصنف ابوبکر ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر ؓ سے روایت 1 ؎ ہے کہ جب کنویں پر کے لوگ اپنی بکریوں کو پانی پلا چکے تو کنویں کے منہ پر انہوں نے ایک پتھر رکھ دیا جس کی دس آدمی اٹھاتے تھے یہ حال دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے نزدیک آئے اور اس کو اٹھایا اور ان دونوں عورتوں کی بکریوں کو اچھی طرح پانی پلادیا اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ 2 ؎ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے جو مدین تک سفر کیا تو ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی اور ننگے پاؤں تھے مدین تک ابھی نہ پہنچے تھے کہ پاؤں کے تلووں میں چھالے پڑگئے تھے اور تلووں کی کھال اتر پڑی تھی درخت کے سایہ میں بیٹھے مدین فرعون کی عملداری سے باہر مصر سے دس دن کے راستے تھے اور وہ دو عورتیں جو اپنی بکریوں کو روکے کھڑی تھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) بیٹیوں کے بکریاں چرانے پر خوش تھے کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں چناچہ صحیح بخاری کی ابوہریرہ ؓ کی روایت 1 ؎ میں اس کا ذکر ہے غرضیکہ جب وہ دونوں لڑکیاں ہر روز کی بہ نسبت سویرے سے بکریاں لے کر اپنے باپ کے پاس آئیں تو باپ کو تعجب ہوا جب لڑکیوں کو زبانی سے قصہ سنا تو باب نے ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بلانے کو بھیجا وہ آئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بلانے کو بھیجا وہ آئی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا میرا باپ تم کو بلاتا ہے کہ پانی پلانے کی اجرت دے معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عمر ؓ سے روایت 2 ؎ ہے کہ وہ آستین سے منہ ڈھانک کر آئی غرضیکہ جب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی وہ سرگذشت بیان کی کہ جس کے سب سے مصر سے نکلے تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا اب کچھ نہ ڈرو تم ظالم قوم کے ظلم سے بچ گئے مطلب یہ کہ تم ان کی عملداری سے باہر نکل آئے کہ یہاں ان کی حکومت نہیں ہے اس میں اختلاف ہے کہ کونسی لڑکی نے دونوں میں سے یہ کہا کہ ائے باپ اس کو مزدوری پر نوکر رکھ لو بعض نے کہا جو لڑکی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بلانے گئی تھی اس نے کہا کہ اے باپ اس کو بکریاں چرانے کے اسطے نو کر رکھ لو اور جب لڑکی نے یہ بات کہی کہ یہ صاحب قوت اور امانت دار ہے تو باپ نے کہا تجھ کو اس شخص کی طاقت اور امانت کا حال کیونکہ معلوم ہوا اس نے جواب میں کہا کہ کنویں کے منہ پر سے اس پتھر کو اٹھا لیا جس کو دس آدمی اٹھاتے ہیں اور جب وقت میں اس کو بلا کر لائی تو اس کے آگے آگے چلتی تھی اس نے کہا کہ میرے پچھے پیچھے چل جب کوئی راستہ نیا آوے یا کئی راہیں ہوں تو جونسے راستے پر چلنا مقصود ہو اس کی طرف کنکر پھینک دے میں سمجھ جاؤں گا کہ اس طرح جانا ہے اتیناہ حکما وعلما کر تفسیر میں مجاہد کا قول ہے کہ انبیاء کو نبوت سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی جان لینے کی سمجھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے جس سے انبیاء اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کا حکم قائم کرلیتے ہیں اسی کو انتباہ حکما وعلما فرمایا سورة انعام میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ گذر چکا ہے کہ انہوں نے سورج چاند اور تاروں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک جان لیا اس سے اور صحیح بخاری 1 ؎ کی حضرت عائشہ ؓ کی اس حدیث سے جس میں یہ ذکر ہے کہ نبوت سے پہلے آنحضرت ﷺ غار حرا میں جاکر خالص اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے مجاہد کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ انبیاء کو نبوت سے پہلے توحید کی سمجھ اللہ تعالیٰ طرف سے دی جاتی ہے آگے آتا ہے کہ نبوت سے پہلے کی اس حالت کے دس برس کے بعد مدین سے مصر کو واپس آتے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی ہے اس لیے جن مفسروں نے نبوت سے پہلے کی اس حالت کی تفسیر نبوت کو قرار دیا ہے وہ تفسیر صحیح نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم 2 ؎ میں سلیمان بن صرد سے روایت ہے جس آنحضرت ﷺ نے غصہ کے وقت اعوذ بااللہ من الشیطان الرحیم پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو غصہ شیطان کے بہکانے سے آتا ہے جو اعوذ کے پڑھنے سے جاتا رہتا ہے۔ غصہ کی حالت میں فرعون کے شخص کے گھونسا مارنے کو موسیٰ (علیہ السلام) نے شیطانی کام جو کہا اس کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح متجھ میں آسکتی ہے یہ سلیمان بن صرد کو فی صحابہ میں ہیں حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے گھونسا مارنے سے بطور عادت کے آدمی نہیں مرتا اس لیے یہ قتل خطا کی صورت تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) سے ظہور میں آئی مقتول کے وارث بغیر عہد والے مشرک تھے اس واسطے بغیر خون بہا کے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خطا کو معاف کردیا صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے اپنی نوے بیبیوں سے نوے لڑکے پیدا ہونے کی قسم کھائی مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا یہ حدیث اس بات کی تفسیر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی فَلَنْ اکون ظھیر المجرمین کے بعد انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے دوسرے دن پر وہی قصہ پیش آیا “ 1 ؎ الترغیب والترہیب ص 444 ج 4 باب فی الشفاعۃ وغیرہا۔ ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 24 1 ج 5 ) 2 ؎ ایضا (1 ؎ مشکوٰۃ باب المبعث وبدء الوحی۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 384 ج 3 ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب المبعث وبدء الوحی ) (2 ؎ الترغیب والترہیب ص 450 ج 3‘ ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب بدء الخلق وذکر الانبیاء ( علیہ السلام) ۔ )
Top