Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 29
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کردی مُوْسَى : موسیٰ الْاَجَلَ : مدت وَسَارَ : اور چلا وہ بِاَهْلِهٖٓ : ساتھ اپنے گھروالی اٰنَسَ : اس نے دیکھی مِنْ : سے جَانِبِ : طرف الطُّوْرِ : کوہ طور نَارًا : ایک آگ قَالَ : اس نے کہا لِاَهْلِهِ : اپنے گھر والوں سے امْكُثُوْٓا : تم ٹھہرو اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ : بیشک میں نے دیکھی نَارًا : آگ لَّعَلِّيْٓ : شاید میں اٰتِيْكُمْ : میں لاؤں تمہارے لیے مِّنْهَا : اس سے بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ جَذْوَةٍ : یا چنگاری مِّنَ النَّارِ : آگ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : آگ تاپو
جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ (تم یہاں) ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے (راستہ کا) کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو
29 تا 34۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے دس برس کی مدت کو پورا کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر کے جانے کا اور اپنے بھائی اور اپنی ماں سے ملنے کا شوق ہوا اور وہ شعیب (علیہ السلام) سے رخصت ہوئے ان کے ساتھ ان کی بی بی اور بکریاں تھیں جو شعیب (علیہ السلام) نے ان کو دی تھیں یہ سفر جاڑے کے موسم کا تھا اور اندھیری رات میں راستہ بھی بھول گئے تھے اسی حالت میں انہوں نے ایک آگ دیکھی تو اپنی بی بی سے کہا تم ٹھہرو میں جاتا ہوں تاکہ راستہ کی کچھ خبر لاؤں اور تاپنے کے لیے کچھ آگ بھی لیتا آؤں جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس آئے جو کوہ طور کے جانب کو تھی یہ آگ ایک سبز درخت میں دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) تعجب ہوا اتنے میں میدان کے داہنے کنارے کے درخت سے یہ آواز آئی کہ اے موسیٰ ! میں تمام جہان کا پالنے والا اللہ رب العالمین ہوں معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ انہوں نے اس درخت کو دیکھا جس کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز آئی وہ کی کر کا درخت تھا نہایت سبز ‘ پھر فرمایا اے موسیٰ ڈال دے اپنی لکڑی جو تیرے ہاتھ میں ہے انہوں نے وہ لکڑی ہاتھ سے ڈال دی تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ڈر کر پیٹھ پھیری اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آگے اے موسیٰ اور خوف نہ کر بیشک تو امن والوں میں سے ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلی جگہ آکر کھڑے ہوگئے پھر فرمایا اپنا ہاتھ بغل میں دبا اور پھر نکال کہ وہ بغیر کسی مرض کے سفید ہوجائے گا اور اس میں سورج کی سی چمک ہوگی پھر فرمایا اگر لکڑی کے سانپ بن جانے اور ہاتھ کے چمکدار ہوجانے سے کچھ ڈر لگے تو سینہ پر ہاتھ رکھ لینے سے یہ ڈر جاتا رہے گا پھر فرمایا یہ دونوں معجزے ہیں تیرے رب کی طرف سے ایک تو عصا کا سانپ ہوجانا دوسرا ہاتھ کا گریبان سے سفید چمک دار نکلنا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف دونوں معجزے خدا نے بھیجے ہیں کہ وہ لوگ بےحکم ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ یہ دونوں معجزے لے کر فرعون کے پاس جاؤ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے تو ایک قبطی کو قتل کیا ہے میں ڈرتا ہوں کہ جب وہ لوگ مجھ کو دیکھیں گے تو جان سے مار ڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح زبان کا ہے کیونکہ میری زبان میں توتلا پن ہے ‘ اس لیے ہارون کو میرا مددگار مقرر فرمایا جائے تاکہ وہ میرے کلام کی تائید کرے کس لیے کہ توتلے پنے کے سبب سے مجھ کو خوف ہے کہ وہ لوگ میرے جھٹلانے پر آمادہ ہوجاویں گے اس کے جواب میں فرمایا اے موسیٰ ہم ہارون کو تمہارا قوت بازو ٹھہراتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ ان معجزوں کے سبب سے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں پر کوئی غالب نہ آسکے گا۔ معتبر سند سے مسند بزار مسند ابی لیلیٰ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے روایت 1 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے موسیٰ (علیہ السلام) کے مدین میں رہنے کی مدت کا حال پوچھا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا موسیٰ (علیہ السلام) شرط کی پوری مدت تک مدین میں رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) دس برت تک مدین میں رہے یہ حدیث فلما قضی موسیٰ الاجل کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت اس باب میں جو اوپر گزر چکی اگرچہ وہ ان کا قول ہے لیکن اس تفسیر میں یہ بات ایک جگہ بیان کردی گئی ہے کہ تفسیر کے باب میں صحابہ ؓ کا صحیح قول حدیث نبوی کے حکم میں ہوتا ہے خصوصاً حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا صحیح قول تفسیر کے باب میں بڑا معتبر ہے سورة النمل میں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث جو گذر چکی ہے وہی انس من جانب الطورنارا کی بھی تفسیر ہے اس میدان میں نور الٰہی کی برکت تھی اس لیے اس کو بقعہ مبارک فرمایا ہے فرقہ جہمیہ کا یہ اعتقاد ایک جگہ گذر چکا ہے کہ کوہ طور کے پاس جو کی کر کا درخت تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک آواز پیدا کردی تھی وہی آواز موسیٰ (علیہ السلام) نے سنی کیوں کہ خود بات چیت کرنے کے لیے زبان اور ہونٹوں کی ضرورت ہے اور ان چیزوں سے اللہ پاک ہے اہل سنت نے آیت انی انا اللہ رب العالمین سے اس اعتقاد کو یوں غلط ٹھہرایا ہے کہ اگر کی کر کا درخت یہ لفظ کہتا تو وہی درخت موسیٰ (علیہ السلام) کا معبود بن جاتا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس درخت کو معبود جانتے تو نعوذ باللہ من ذالک مشرک ٹھہرتے۔ اہل سنت نے یوں بھی اس عتقاد کو غلط ٹھہرایا ہے کہ سورة حم السجدہ میں یہ جو ذکر ہے کہ بغیر زبان اور ہونٹوں کے آسمان اور زمین نے اتینا طاعین کہ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کا جو جواب دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے بات چیت میں زبان اور ہونٹوں کا ہونا کچھ لازمی چیز نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 2 ؎ سے عدی ؓ بن حاتم کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص سے بلا واسطہ بات چیت کرے گا ‘ اس حدیث سے بھی فرقہ جہمیہ کے اعتقاد کی غلطی اچھی طرح ثابت ہوتی ہے کیوں کہ اس میں کلام الٰہی کے ساتھ کسی واسطے کا ذکر نہیں ہے اس سورة میں یہ ذکر تفصیل سے نہیں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زبان کے توتلے پنے کی جو شکایت کی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے کیا دیا لیکن سورة طہٰ میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ شکایت بی اتنی رفع فرمادی تھی کہ لوگ ان کی بات کو سمجھ لیتے تھے موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے فرعون کی قوم کے ایک شخص کے مارے جانے کا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کے جل جانے کا اور اسی سبب سے اس میں توتلاپن پیدا ہوجانے کا قصہ اوپر گزر چکا ہے یہاں تو مختصر طور پر اتنا ہی فرمایا کہ اے موسیٰ ہم ہارون کو تمہارا قوت بازو ٹھہراتے ہیں لیکن سورة مریم میں گزر چکا ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کے لیے ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا فرمائی۔ (1 ؎ تفسیر الدرالمنثور 126 ج 5 تفصیلی کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص 386‘ 387 ج 3 ) (2 ؎ مشکوۃ باب الحساب والقصاص والمیزان فصل اول۔ )
Top