Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا١ۛۚ بِاٰیٰتِنَاۤ١ۛۚ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ
قَالَ : فرمایا سَنَشُدُّ : ہم ابھی مضبوط کردیں گے عَضُدَكَ : تیرا بازو بِاَخِيْكَ : تیرے بھائی سے وَنَجْعَلُ : اور ہم عطا کریں گے لَكُمَا : تمہارے لیے سُلْطٰنًا : غلبہ فَلَا يَصِلُوْنَ : پس وہ نہ پہنچیں گے اِلَيْكُمَا : تم تک بِاٰيٰتِنَآ : ہماری نشانیوں کے سبب اَنْتُمَا : تم دونوں وَمَنِ : اور جس اتَّبَعَكُمَا : پیروی کی تمہاری الْغٰلِبُوْنَ : غالب رہو گے
(خدا نے) فرمایا ہم تمہارے بھائی سے تمہارے بازو کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے تو ہماری نشانیوں کے سبب وہ تم تک پہنچ نہ سکیں گے (اور) تم اور جنہوں نے تمہاری پیروی کی غالب رہو گے
35۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ فرعون کے ساتھ اگرچہ بہت کچھ بھیڑ بھاڑ لشکر یک تھی اور اس لشکر کے مقابلہ میں ادھر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کل دوہی شخص تھے لیکن حضرت موسیٰ ہی اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے موافق ہیمشہ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر ایسے غالب رہے کہ فرعون اور اس کے ساتھ عاجز آگئے اور باوجود اس قدر لاؤ لشکر کے دو آدمیوں کا مقابلہ نہ کرسکے پہلے برسر میدان جادو گروں نے مقابلہ کیا وہ عاجز ہو کر مسلمان ہوگئے پھر قحط پڑا تو ایسا ہی کہ جنگل میں تمام کھیت اور شہر میں تما باغ خشک ہوگئے پھر آٹھ روز تک مینہ بر ساتو ایسا ہی برسا کہ بنی اسرائیل کو کچھ صدمہ نہ پہنچا اور قبطیوں کی زراعت ان کے باغ مکانوں کی چھتیں بدن کے کپڑے اور گھر کا سب سامان ٹڈیوں نے کھا کر برابر کردیا پھر جچڑیوں کا وبال ایسا ہی آیا جس سے ہر ایک قبطی زیست سے بےزار ہوگیا پھر مینڈکوں کا وبال ایسا ہی آیا کہ کھانے پینے میں جہاں دیکھوں وہاں مینڈک تھے یہاں تک کہ پکتی ہنڈیا اور گرم تنور سب میں مینڈک ہی بینڈک تھے پھر خون کا عذاب ایسا ہی آیا تمام پینے کا پانی یہاں تک کہ نیل دریاسب خون ہی خون ہوگیا غرض سورة اعراف میں ان و بالوں کی تفصیل گذر چکی ہے کہ جادو گروں کے مسلمان ہونے کے زمانہ سے فرعون کے غرق ہونے کے زمانہ تک چالیس برس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد میں غیب سے یہی آنتیں فرعون پر آئیں اور اس کے ساتھیوں نے رسول وقت کی فرما نبر داری قبول نہ کی تو آخر کو ایک دم غرق ہو کر سب ہلاک ہوگئے حاصل کلام یہ ہے کہ مدد غیبی کے سبب سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کو اور ان کے طفیل سے نبی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ساتھیوں پر جو کچھ غلبہ رہا ہے اس غلبہ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس وقت فرمایا ہے جب مدین سے مصر آتے وقت حضرت موسیٰ کو نبوت ملی ہے اس وعدہ کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے اسی طرح کتب اللہ لاغلبن و رسلی کے موافق ہر رسول سے اللہ تعالیٰ کی مدد غیبی کا وعدہ ہے اور اس وعدے کا یہ ظہور ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک جو صاحب شریعت نبی ہیں۔ آخر کو ان کا ہی غلبہ رہا اور ان کے مخالف طرح طرح کے و بالوں سے ہلاک ہوگئے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے مدد غیبی کا وعدہ فرمایا ہے اسی طرح سچے دل سے جو لوگ اللہ کے رسولوں کے فرما نبر دار ہیں ان کی مدد کا بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے چناچہ سورة غافر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انا لننصر رسلنا والذین آمنو فی الحیوٰۃ الدنیا ویوم یقوم الا شھاد مطلب یہ ہے کہ رسولوں اور ایمانداروں کو دنیا اور عقبیٰ میں مدد دینے کا اللہ کا وعدہ ہے امتحان کے طور پر اللہ کے رسولوں کے سچے فرما نبرداروں کو مخالفوں کے ہاتھ سے کچھ تکلیف پہنچ گئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق پھر مخالفوں سے پورا بدلہ لیا ہے حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حسین ؓ شہید کے بدلہ میں ہزا رہا آدمی قتل ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے جیسی تکلیف دی اللہ تعالیٰ نے اہل روم کو پھر ان پر مسلط کیا اور ویساہی ان سے بدلہ لیا مکہ میں آنحضرت ﷺ کی تکلیف کے درپے جو لوگ تھے جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد بھیج کر کیا کچھ ان کو ذلیل کیا یہ سب کچھ تو دنیا کی مدد غیبی کا ذکر ہوا جو لوگ اللہ کے عہد پر پورے قائم رہیں گے اور اللہ کے رسولوں کی پوری فرمانبرداری کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مدد آخرت کا جو ان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ایک نیکی کا دس سے لے کر سات سو تک بدلہ اور بہت سے گناہوں سے درگزر کرے گا اس اپنے وعدے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ضرور پورا فرمائے گا اوفو بعھدی اوف بعھد کم پر ہر مسلمان کو پورا ایمان رکھنا چاہیے اور اپنی عہد کو خالص دل سے پورا کرنا چاہیے ‘ پھر اللہ کے عہد کا اپنے وقت پر ضرور ظہور ہونے والا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎ سے معاذبن جبل ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ لوگ خالص دل سے اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اور اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ ان کو اپنے عذاب سے بچادے یہ حدیث اور بندوں کے عہد اور اس کہ پورا ہونے کی گویا تفسیر ہے (1 ؎ مشکوۃ کتاب الایمان )
Top