Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 3
نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
نَتْلُوْا : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ نَّبَاِ : کچھ خبر (احوال) مُوْسٰى : موسیٰ وَفِرْعَوْنَ : اور فرعون بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں
(اے محمد) ہم تمہیں موسیٰ اور فرعون کے کچھ حالات مومن لوگوں کے سنانے کے لئے صحیح صحیح سناتے ہیں
3 تا 7۔ اوپر گزر چکا ہے کہ فرعون نے ایک رات کو سوتے میں خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ مصر میں آن کر پھیل گئی اور فرعون کی قوم کے تمام گھر تو اس آگ میں جل گئے لیکن مصر میں بنی اسرائیل کا محلہ اس آگ سے بچ گیا ہے صبح کو فرعون جب سو کر اٹھا تو اس نے اپنے نجومیوں اور جادو گروں کو جمع کر کے اس خواب کی تعبیر پوچھی انہوں نے کہا بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے ہاتھوں سے تیری بادشاہت غارت ہوجائے گی اور مصر کو صدمہ پہنچے گا اس خواب اور اس تعبیر کے ڈر سے فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ جب ہزارہا لڑکے بنی اسرائیل کے قتل ہونے لگے تو فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے آکر کہا کہ بنی اسرائیل کی فقط عورتیں باقی رہ جائیں گی پھر بادشاہی حکم سے طرح طرح کی محنت مزدوری کے کام جو بنی اسرائیل کو سونپے گئے ہیں آخر وہ کیوں کر چلیں گے اس پر فرعون نے یہ حکم دیا تھا کہ ایک سال بنی اسرائیل کے لڑکے مارے جاویں اور ایک سال چھوڑ دیے جاویں حضرت ہارون ( علیہ السلام) تو اس سال میں پیدا ہوئے جو لڑکوں کے زندہ چھوڑ دینے کا سال تھا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) لڑکوں کے مارے جانے والے سال میں پیدا ہوئے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دیویں۔ یہ اوپر سورة یوسف میں گزر چکا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ سے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد جو بنی اسرائیل کہلاتی ہیں ملک شام سے مصر میں آن کر رہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد جب فرعون کی حکومت ہوئی تو فرعون اپنی قبطی قوم کو تو عزت سے رکھتا تھا اور بنی اسرائیل کو غیر قوموں کے لوگ پا کر ذلت سے رکھتا تھا اور محنت مزدوری کے ذلیل کام ان سے لیتا تھا یہ قصہ تفسیر 1 ؎ سدی میں ہے یہ تفسیر ایک معتبر تفسیر ہے اس تفسیر میں اکثر روایتیں حضرت عبداللہ بن معسود اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اسماعیل سدی نے نقل کی ہیں سفیان ثوری اور شعبہ نے اکثر روایتیں اسماعیل سدی سے اپنی تفسیروں میں نقل کی ہیں اور ابن جریر (رح) نے بھی اپنی تفسیر میں جگہ جگہ اسماعیل سدی سے روایت کی ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بھی اکثر جگہ تفسیر سدی سے روایتیں نقل کی ہیں چناچہ اس قصہ کو بھی حافظ ابن حجر (رح) نے تفسیر سدی کے حوالہ سے فتح الباری میں نقل کیا 2 ؎ ہے اور اس کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قصہ کی اصل ہے امام احمد (رح) نے اسماعیل سدی کو ثقہ کہا ہے اور ابن عدی نے صدوق ٹھہرایا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اپنے خواب کی تعبیر سے ڈر کر فرعون نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے بنی اسرائیل کے بےگناہ لڑکوں کو مار ڈالنا ایک ظلم تھا اسی واسطے فرعون کو دنیا میں خرابی ڈالنے والا فرمایا اس سے بڑھ کر اور پیدا ہونے والے لڑکوں کو یہ ظالم مروا ڈالنا صحیح مسلم کے حوالہ 3 ؎ سے جابر ؓ بن عبداللہ کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام ٹھہرالیا ہے اور لوگوں کو بھی ظلم سے منع فرمایا ہے اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ ظلم کیسی خرابی کی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خود بھی اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرایا اور لوگوں کو بھی اس کے برتاؤں سے روکا۔ اب آگے فرمایا کہ فرعون نے تو اپنے خواب کی تعبیر کے مٹانے کی بہت کوشش کی مگر تقدیر الٰہی کے آگے انسان کی تدبیر کیا چل سکتی ہے اللہ کا ارادہ ازلی تو یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل پر یہ احسان کرے کہ فرعون کو ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو ملک شام میں بادشاہ اور مصر میں فرعون کا قائم مقام بنا دیوے تاکہ فرعون اس کا وزیر ہامان اور ان کے لشکر کے لوگ فرعون کی جس خواب کی تعبیر سے ڈرتے ہیں وہی تعبیر ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے اور فرعون کو خدائی کے دعویٰ کی اور اس کے ساتھیوں کو اس کا ساتھ نباہنے کی پوری سزا مل جاوے لکنا اس انتظام کی ظہور موسیٰ (علیہ السلام) کے پرورش پانے اور نبی ہونے پر منحصر تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں اللہ نے یہ بات ڈال دی تھی کہ جس سال لڑکے مارے جاتے تھے اس سال موسیٰ کے پیدا ہونے کا کچھ اندیشہ نہ کیا جاوے اور دودھ پلانے کے بعد بلا خوف بچہ کو ایک صندوق میں لٹا کر اس صندوق میں ایک رسی باندھ دی جائے اور اس رسی کے ایک سرے کو کسی پیڑ میں باندھ دیا جائے تاکہ اس بچہ پر کسی فرعونی کی نظر نہ پڑے اتنے سے بچہ کے دریا میں ڈالنے سے کچھ اندیشہ نہ کیا جاوے کیوں کہ اس بچہ کو ہر آفت سے بچانا اور صحیح سلامت ماں کے پاس لے آنا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذمہ لیا ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رسولوں کے گروہ میں داخل کرنا چاہتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ 1 ؎ سے عبداللہ بن ؓ عمرو بن العاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے دینا میں جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس حدیث کو آیتوں کو تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکوں کو قتل کرایا موسیٰ (علیہ السلام) کا جادو گروں سے مقابلہ ٹھہرایا غرض اس نے کوئی تدبیر اپنے خواب کی تعبیر کو اڑا دینے کی اٹھا نہیں رکھی لیکن دنیا سے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جو بات لوح محفوظ میں لکھی جاچکی تھی وہ کسی تدبیر سے ٹل نہ سکتی قتادہ کا قول ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں جو بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی وہ نبوت کی وحی نہیں تھی کیوں کہ نبوت کی وحی میں امت کی ہدایت کے طرح طرح کے احکام ہوتے ہیں جو اس الہام میں نہیں تھے اس لیے یہ الہام خاص دنیوی انتظام کا ایک الہام تھا نبوت کی وحی نہ تھی معتبر سند سے ترمذی میں انس بن مالک ؓ سے 2 ؎ اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ 3 ؎ سے عورتوں کی فضیلت میں جو روایتیں ہیں لیکن بروایت مسند امام احمد (رح) ان میں حضرت خدیجہ ؓ فاطمہ ؓ مریم ؓ اور آسیہ ؓ فرعون کی بیوی ان چار عورتوں کا ذکر ہے علاوہ ان روایتوں کے اور بعضی صحیح روایتوں میں حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت کا بھی ذکر 4 ؎ ہے ان سب روایتوں سے قتادہ قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا الہام اگر تبوت کی وحی کے برابر ہوتا تو وہ نبی ہوتیں اور عورتوں کی فضیلت کی حدیثوں میں ان کا ذکر ضرور ہوتا۔ (1 ؎ تفسیر ابن جریر ص 27 پارہ 20 طبع جدید و تفسیر الدر المنثور ص 119 ج 5۔ ) (2 ؎ فتح الباری ص 248 ج 3 طبع دہلی۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم ص 32 ج 2۔ ) ) 1 ؎ مشکوۃ باب الایمان بالقدر۔ ( (2 ؎ مشکوۃ باب مناقب ازواج النبی ‘ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 394 ح 4 (4 ؎ مثلا مشکوٰۃ ص 509 باب بدر الخلق۔ )
Top