Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 41
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ
وَ : اور جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے بنایا انہیں اَئِمَّةً : سردار يَّدْعُوْنَ : وہ بلاتے ہیں اِلَى النَّارِ : جہنم کی طرف وَ : اور يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ دئیے جائیں گے
اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن انکی مدد نہیں کی جائے گی
41 تا 46۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا دنیوی انجام اوپر ذکر فرما کر اب ان کا عقبیٰ کے انجام کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے دن ان لوگوں کے پیشوا ہوں گے جو ان کے بہکانے کے سبب سے گمراہ ہو کر دوزخ میں اس طرح جھونکے جاویں گے کہ بہکانے والوں کا بہکنے خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بہکانے کا دوسرا عذاب ہوگا تو ان کے پیرو کچھ ان کی مدد نہ کرسکیں گے اس دو ہرے عذاب کا ذکر سورة النمل میں گزر چکا ہے اور اسی ذکر میں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے یہی قیامت کے دو ہرے عذاب کا ذکر وَیَوْمَ الْقِیَامَۃ ھم الَمْقُبوحْیِن کی گویا تفسیر ہے پھر فرمایا ” پیچھے رکھی ہم نے ان کے دنیا میں لعنت ایمانداروں کے زبان پر اور قیامت کے روز وہ برائی والوں میں سے ہونگے ‘ آگے اب اللہ تعالیٰ اپنے اس انعام کی خبر دیتا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کیا وہ یہ کہ فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر کتاب تو ریت اتاری مطلب یہ ہے کہ تو ریت اتارنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی امت پر ہلاک کرنے کا عذاب عام طور پر نہیں اتارا بلکہ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کریں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر ﷺ کی نبوت پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ وہ گذشتہ حالات کی ایسی خبر دیتے ہیں کہ گویا اس وقت موجود تھے اور انہوں نے آنکھوں سے وہ حالات دیکھے ہیں حالانکہ وہ ان پڑھ تھے اور انہوں نے ایسے لوگوں پرورش پائی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے حاصل یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے پہلی امتوں کی باتیں تم پر اس لیے اتاری ہیں کہ پہلے کے عذابوں سے تم اپنی قوم کو ڈراؤ تاکہ اللہ تعالیٰ جب ان کے کفر کے سبب سے ان پر عذاب نازل کرے تو کچھ عذر اس کا باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہیں کہ ہمارے پاس تو کوئی سول ڈرسنانے والا نہیں آیا اس مضمون کی قرآن شریف میں اکثر آیتیں ہیں اور آگے کی آیتوں میں بھی یہ ذکر آتا ہے غرض انجانی کے عذر کو رفع کردیتا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اس لیے فرعون کے پاس اور فرعون سے پہلی قوموں کے پاس پچھلے رسولوں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول بنا کر اگرچہ ایسے زمانہ میں بھیجا کہ اے رسول اللہ کے اس زمانہ میں تم موجود نہیں تھے لیکن تمہاری ان پڑھ قوم کو ان پہلی قوموں کے قصے اس واسطے سنا دیئے گئے کہ تمہاری قوم کی بھی وہ نوبت نہ آوے کی جس طرح وہ پہلے لوگ دنیا کی زندگی کو پائدار سمجھ کر عقبیٰ سے بالکل غافل ہوگئے اور اللہ کے رسولوں کی نصیحت کو جھٹلانے لگے آخر طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے اللہ سچا ہے اللہ کے وعدہ سچا ہے اہل مکہ میں کے جن سرکش مشکوں نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو سچا نہیں جانا صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی حدیث کے حوالہ سے ان کا انجام اوپر گزر چکا ہے کہ دنیا میں بدر کی لڑائی کے وقت یہ بڑے بڑے سرکش نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عقبیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوگئے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اللہ کا وعدہ یا ددلایا اور یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو پچا پالیا۔
Top