Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 50
فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ١ؕ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا : وہ قبول نہ کریں لَكَ : تمہارے لیے (تمہاری بات) فَاعْلَمْ : تو جان لو اَنَّمَا : کہ صرف يَتَّبِعُوْنَ : وہ پیروی کرتے ہیں اَهْوَآءَهُمْ : اپنی خواہشات وَمَنْ : اور کون اَضَلُّ : زیادہ گمراہ مِمَّنِ اتَّبَعَ : اس سے جس نے پیروی کی هَوٰىهُ : اپنی خواہش بِغَيْرِ هُدًى : ہدایت کے بغیر مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (منجانب اللہ) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگّ (جمع)
پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ؟ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
50 تا 53۔ حضرت نوح جو سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہیں ان کے زمانہ سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک جس قدر پہلی امتیں اللہ کے رسولوں کی نافرمانی میں ہلاک ہوئیں ان کا ذکر قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اوس ذکر میں سے فرعون کے غرق ہونے کے تذکرہ کا ٹکڑا اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں ذکر فرما کر اس آیت میں رسول ﷺ کے نافرمان لوگوں کو ڈرا دیا ہے اور فرمایا ہے کہ پہلی امتوں کا پے درپے اس لیے ذکر کیا جاتا ہے کہ پہلے نافرمان لوگوں کا حال گھڑی گھڑی سن کر حال کے زمانہ کے نافرمان لوگوں کو ایک طرح کی عبرت اور نصیحت اس بات کی ہو کہ اگر یہ حال کے زمانہ کے لوگ رسول قوت کی نافرمانی سے باز ؓ آویں گے تو آخر وہی حال ان کا ہونے والا ہے جو پہلے نافرمان لوگوں کا ہوا اگرچہ مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں قریش کی شان میں ہے بعضے کہتے ہیں اہل کتاب کی شان میں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالٍٰ نے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو لوگ ہدایت الٰہی کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے موافق چلتے ہیں اب خواہ قریش ہوں یا اہل کتاب یا حال کے امت محمد ﷺ یہ کے بدعتی لوگ جو اپنی خواہش اور رسم کو حکم الٰہی اور فرما نبرداری رسول ﷺ پر مقدم رکھتے ہیں سب اس آیت کے حکم میں داخل ہیں اور سب کو اللہ تعالیٰ نے رسول وقت کی مخالفت سے ڈرایا ہے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث 1 ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس زمانہ کے لوگوں میں سے خواہ یہودی خواہ نصرانی کوئی ہو جو میری مخالفت کرے گا وہ دوزخ میں جاوے گا یہ حدیث اس آیت کی پوری تفسیر اور پوری شان نزول ہے کیونکہ جب غیرامت کے لوگوں کو بھی آپ نے اپنی مخالفت سے ڈرایا ہے تو خود وہ لوگ جو آپ کی امت کھلاتے ہیں آپ کی مخالفت کے بعد کس طرح دوزخ سے امن پاسکتے ہیں اب اس عبرت دلانے کی آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایمان کی رغیب دلانے کے لیے ان اہل کتاب کا ذکر آگے کی آیتوں میں فرمایا ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی جو صفتیں اپنی کتاب میں پائی تھیں ان کو آنحضرت ﷺ میں پاکر ان کو سچا نبی اور قرآن شریف کو اللہ کی سچی کتاب تسلیم کرلیا یہ ذکر بھی عام ہے یہود ونصارے دونوں کو شامل ہے کیوں کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آپ نے یہ جو خوشخبری اہل کتاب کو دی ہے کہ اہل کتاب میں سے جو شخص اپنی کتاب پر ایمان قائم رکھ کر قرآن پر بھی ایمان لاء لاوے اس کو اللہ تعالیٰ دوگنا اجردے گا وہ حدیث عام خوشخبری میں ہے نہ اس میں یہود کی کچھ خصوصیت ہے نہ نصاری کی وہی صحیح حدیث ان آیتوں کی تفسیر اور شان نزول کے لیے کافی ہے بعضے مفسرین نے یہ اختلاف جو کیا ہے کہ ایک فریق حبشہ کے نصاریٰ کی مدح اس آیت کو ٹھہراتے ہیں اور دوسرا فریق عبداللہ بن سلام وغیرہ کی مدح قرار دیتے ہیں اس اختلاف کی کوئی ضرورت پائی نہیں رہ جاتی کیونکہ یہ بات اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکی ہے کہ چند قصوں کا مجموعہ کبھی شان نزول ہوتا ہے اس لیے یہاں بھی حبشہ کے نصارے کے قصے اور عبد اللہ ؓ بن سلام کے قصہ سے ان دونوں قصوں کو آخر کی تینوں آتیوں کی شان نزول قرار دیا جائے۔ تو پھر کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا یہی حال پہلی آیت کا ہے کہ اس نے سے پہلے قل فاتو اب کتاب من عنداللہ فرما کر تو قریش کو مخاطب ٹھہرایا تھا پھر ومن اضل ممن اتبع ھواہ اس واسطے سنائے جاتے ہیں کو جو کوئی پہلی امتوں کی طرح نافرمانی کی چال چلے گا عذاب میں گرفتار ہوجائے گا فرق فقط اتنا ہی ہے کہ قریش نے یہ قصے پہلے پہل سنے ہیں اور اہل کتاب تو رات کے ذریعہ سے بھی ان قصوں کو سن چکے ہیں اور قرآن کے ذریعہ سے بھی تو رات کی تصدیق ہوگئی ہے اس پر بھی اگر یہ لوگ نہ مانیں گے تو وہ آسمانی کتابوں کے جھٹلانے کے وبال میں پکڑے جائیں گے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث جو اوپر گزری اس سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دو شریعتوں کی پابندی کے سبب سے جس طرح اہل کتاب کو دوگنا اجرملے گا اسی طرح دو شریعتوں کے جھٹلانے والے اہل کتاب کو خمیازہ بھی دوگنا بھگتنا پڑے گا حبشہ کے نصاریٰ کا قصہ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کہ نجاشی کے پاس سے چند عیسائی میدنہ میں آئے اور قرآن شریف کی آیتیں سن کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے صحیح بخاری وغیرہ میں عبداللہ ؓ بن سلام کے اسلام کا قصہ 1 ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ عبداللہ ؓ بن سلام یہود میں کے بڑے عالم تھے اس واسطے یہود پہلے تو ان کو بہت اچھا کہتے تھے مگر ان کے اسلام لانے کے بعد ان کو برا کہنے لگے عبداللہ ؓ بن سلام اور ان کے ساتھی یہود کے برابر کہنے کو در گزر سے ٹال دیتے تھے حبشہ کے نصاریٰ نے اسلام میں داخل ہوں کے بعد تنگ دست مہاجرین کی کچھ مالی امداد بھی کی تھی غرض اس سے درگزر اور اللہ کے نام پر خرچ کرنے کا ذکر ان آیتوں میں خاص بطور تعریف کے فرمایا ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 12 کتاب الایمان۔ ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب فی المعجزات فصل اول ‘ )
Top