Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
54 تا 56۔ اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب کی یہ تعریف تھی کہ وہ قرآن شریف کو بھی مانتے ہیں اور جو کتاب ان کو پہلے مل چکی ہے اس کو بھی مانتے ہیں اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ہٹاتے ہیں اور ہماری دی روزی میں سے خرچ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو دوہرا اجر ملی گا اب فرمایا وہ لوگ جب کوئی ناشائستہ بات سنتے ہیں تو اس سے درگزر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے عمل اور تمہارے واسطے تمہارے عمل بس تمہیں رخصت کا سلام پہنچے ہم جاہلوں کی چال کو پسند نہیں کرتے حضرت ﷺ نے ابو طالب کے لیے کوشش کی کہ مرتے وقت تک کلمہ بڑھ لیں مگر ابوطالب نے اس کو منظور نہ کیا اس پر آیت انک لاتھدی اتری آگے ذکر ہے کہ مکہ والوں نے کہا ہم اگر السلام قبول کریں تو تمام عرب کے لوگ ہم سے عداوت کرنے لگیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ اب کس کی پناہ میں ہیں یہ ہی حرم امن والا ہے جہاں ہم نے ان کو جگہ دے رکھی ہے اسلام کے بعد بھی ہم ہی پناہ دینے والے ہیں صحیح بخاری ومسلم میں مسیب بن جزن مخزومی سے اور فقط صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے جو روایتیں 2 ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت بہت کوشش کی کہ ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوجاویں مگر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کے بہکانے سے ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ تسلی فرمائی کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جنتی اور دوزخی اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی قرار پا چکے ہیں اور علم الٰہی کا یہ نتیجہ لوح محفوظ میں لکھا بھی جا چکا ہے اس لیے ابو طالب کی طرح باوجود فہمایش اور کوشش کے جو شخص دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو تو اس کا کچھ رنج نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایسے لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے اہل کتاب کے ذکر کے بعد ابو طالب اور مشرکین مکہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاوے کہ خاص مکہ کے جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے تھے وہ اسلام سے محروم رہے اور باہر کے جو لوگ علم الٰہی میں نیک راہ قرار پاچکے تھے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں اور اسلام سے محروم رہنے والوں کا ذکر جو اوپر گزر اس کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 394 ج 3 و تفسیر الدر المنثور ص 133 ج 5۔ )
Top