Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 64
وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا ادْعُوْا : تم پکارو شُرَكَآءَكُمْ : اپنے شریکوں کو فَدَعَوْهُمْ : سو وہ انہیں پکاریں گے فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا : تو وہ جواب نہ دیں گے لَهُمْ : انہیں وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّهُمْ : کاش وہ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ : وہ ہدایت یافتہ ہوتے
اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ تو وہ انکو پکاریں گے اور وہ ان کو جواب نہ دے سکیں گے اور (جب) عذاب کو دیکھ لیں گے (تو تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یاب ہوتے
64 تا 73۔ اوپر کی آیتوں میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قریش کو طرح طرح کی فہمائش کی ہے اسی طرح کی فہمایش ان آیتوں میں ہے حاصل اس فہمایش کا یہ ہے کہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر جو یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہزارہا نعمتوں میں سے مثلا ایک دن رات ہے ایک رات اگر اللہ کے حکم سے آفتاب نہ نکلے اور زمین کے اندر روکا ہی رہ جاوے یا جس طرح ہر روز شام کو اللہ کے حکم سے سورج غروب ہوتا ہے اسی طرح ایک رات کو غروب نہ ہو اور بجائے رات کے دن اور بجائے دن کے رات ہوجاوے اور ان لوگوں کے دن اور رات کے عادتی اور مقررہ کاموں میں ہرج پڑجاوے تو بھلا ان کے بتوں میں قدرت ہے کہ ان کے اس حرج کے رفع کرنے کے لیے اللہ کے انتظام کے موافق پھر رات اور دن کو قائم کردیں یہ تو ان کے بتوں اور شیاطینوں کی دنیا میں جو عاجزی ہے اس کا حال ہوا اب عقبیٰ میں یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے جن اور شیاطین وہاں ان کی اللہ سے سفارش کریں گے اللہ ان کو خبر دیتا ہے کہ قیامت کے ان کے یہ جھوٹے معبود بالکل ان سے بیزار ہوجائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں سے کہے گا کہ تم اپنے معبودوں کو بلاؤ تاکہ وہ تمہاری گے بلکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں سے کہوے گا کہ تم اپنے معبودوں کو بلاؤ تاکہ وہ تمہاری سفارش کریں تو کبھی تو ان کو جواب تک نہیں دیویں گے اور کبھی جواب دیویں گے تو یہ الٹا جواب دیں گے کہ جیسے گمراہ یہ ویسے ہی ہم پھر ہم ان کی کیا سفارش کرسکتے ہیں پھر اب یہ ظاہر بات ہے کہ تعظیم تو اسی کی کوئی کیا کرتا ہے جس سے دین یا دنیا کا کسی طرح کا کام نکلے وہ بات اللہ ہی وحدہ لاشریک میں ہے اور ان کے بتوں میں کچھ بھی نہیں پھر یہ لوگ کس استحقاق سے بتوں کو اپنا معبود ٹھہراتے ہیں اور اللہ کے رسول اسی طرح کے جھوٹے معبودوں کی مذمت اور خالص اللہ کی عبادت کی ہدایت ان نادانوں کو جو کرتے ہیں تو یہ اللہ کے رسول کی مخالفت پر کیوں کمر باندھتے ہیں آج یہ لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کو ایک سر سری بات سمجھتے ہیں کل قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ان سے پوچھے گا کہ بتلاؤ تم لوگوں نے اللہ کہ رسولوں کی کبا فرماں برداری کی تو ان کے ہوش اڑ جائیں گے اور ان کو جواب تک نہ آوے گا یہ توحید اور اطاعت رسول کا سوال گویا آخری سوال ہے جو میدان قیامت میں خاص اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوگا اور یوں تو توحید اور اطاعت رسول کی پرسش آدمی کی قبر میں دفناتے ہی شروع ہوجاتی ہے چناچہ صحیح حدیثیں 1 ؎ اوپر گذر چکی ہیں کہ دفنانے والے لوگ ابھی قبرستان سے پلٹ کر بھی نہیں آتے کہ منکر نکیر دو فرشتے مردہ کے پاس آن کر اس سے توحید اور اطاعت رسول ﷺ کا سوال شروع کردیتے ہیں جو شخص توحید اور اطاعت رسول ﷺ پر ثابت قدم دنیا سے اٹھا ہے وہ ان کے سوال کا جواب پورا پورا دیتا ہے اور طرح طرح کی راحت ایسے شخص کے لیے اس وقت سے پیدا ہوجاتی ہے اور جو توحید اور طاعت رسول ﷺ میں کچا ہے وہ ان کے سوال کے جواب کے وقت ہائے ہائے کر کے رہ جاتا ہے اور اس وقت سے طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے غرض تھوڑے دنوں کی دنیا کی زیست ہے اور اس زیست میں کمائی کی چیز توحید اور اطاعت رسول ﷺ سے بڑھ کر کوئی نہیں اللہ سب کو اس کمائی کا شوق دیوے حاصل مطلب یہ ہے کہ جب سب نبی اور امتیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبر کھڑے ہوں گے تو پہلے ہر ایک امت کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم کو تمہارے نبی نے اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بچنے کی جو نصیحت کی تو تم لوگوں نے اس نصیحت پر کیا عمل کیا اس کا جواب نہ ہر ایک مشرک کو خود سوجھے گا نہ ایک کو دوسرا عزیز قریب کچھ مدد دے سکے گا غرض اس موقع پر جنھوں نے مرنے سے پہلے شرک کو چھوڑ کر کچھ نیک عمل دنیا میں کرلیے ان کو نجات کی امید ہوسکتی ہے ورنہ ایسے موقع پر مشرک کو اپنی نجات کی کچھ امید نہ رکھنی چاہیے مشرک کی نجات نہ پانے کا اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے اس کا ذکر سورة النسآء میں گذر چکا ہے پھر فرمایا کہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شخص کی نیت اور عملوں کا سب حال اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی کے موافق دنیا کا انتظام چل رہا ہے اس انتظام میں ان مشرکوں کی پسند کا کچھ دخل نہیں ہے جو یہ لوگ بجائے محمد ﷺ کے ولید بن مغیرہ یا عروہ بن مسعود کا نبی ہونا پسند کرتے ہیں اللہ ان مشرکوں کی ان باتوں سے الگ ہے اور ان مشرکوں کی بکواس سے کیا ہوتا ہے یہ لوگ اپنی ناسمجھی سے ایسی بکواس لگاتے ہیں ورنہ سمجھ دار لوگ اللہ کی حکمت اور نشانیاں دیکھ کر اسی کو اپنا معبود جانتے ہیں اور دنیا میں بھی اس کی قدرت اور اس کی حکمت کی تعریف کرتے ہیں اور عقبیٰ میں بھی کریں گے اور عقبیٰ کا جزاو سزا کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اسی لیے اس فیصلہ کے وقت جب سب مخلوقات اس کے روبرو کھڑی ہوگی تو ان مشرکوں کو اپنی اس بکواس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اب آگے رات دن کی نعمت کا احسان جتلایا تاکہ لوگ اس کے شکریہ میں خالص اللہ کی عبادت کریں مشرکوں کو شرک کی برائی دوبارہ جتلانے کے لیے فرمایا کہ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جاوے گا کہ کہاں ہیں وہ اللہ کے شریک جن کا تم کو دنیا میں بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ تمہاری شفاعت کریں گے۔ مشرکین مکہ میں یہ دونوں شخص ولید اور عرہ ذراز وردار تھے اس لیے مشرکین مکہ کہتے تھے کہ بجائے محمد ﷺ کے ان دونوں شخصوں میں کوئی نبی ہوتا تو اچھا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ اسی کا جواب ان آیتوں میں دیا ہے سورة زخرف میں مشرکین مکہ کے اس قول کی تفصیل زیادہ آوے گی صحیح بخاری شریف کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی حدیث 1 ؎ آگے کی آیت کی تفسیر میں جو آتی ہے وہی حدیث ان آیتوں کی بھی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل آگے کی آیت کی تفسیر سے سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پچھلی امتوں کے لوگ جب قیامت کے دن اپنے رسولوں کو جھٹلا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ کہویں گے کہ یا اللہ قرآن میں پچھلا سب حال ہے اس لیے ہم گواہی دیتے ہیں کہ قرآن سے پہلے کے سب انبیاء نے تیرا ہر ایک حکم اپنی امت سے لوگوں کو پہنچا دیا ہے اسی گواہی پر فیصلہ ہوگا۔ (1 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر۔ ) (1 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب اخبات عذاب القبر۔ )
Top