Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Qasas : 85
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْ : وہ (اللہ) جس نے فَرَضَ : لازم کیا عَلَيْكَ : تم پر الْقُرْاٰنَ : قرآن لَرَآدُّكَ : ضرور پھیر لائے گا تمہیں اِلٰى مَعَادٍ : لوٹنے کی جگہ قُلْ : فرما دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے مَنْ : کون جَآءَ : آیا بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَمَنْ هُوَ : اور وہ کون فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
(اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دے گا کہہ دو کہ میرا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور (اسکو بھی) جو صریح گمراہی میں ہے
85 تا 88۔ صحیح بخاری اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے جس میں انہوں نے فرمایا معاد سے مقصود مکہ معظمہ ہے جس کا حاصل فتح مکہ کی خوشخبری ہے۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول ہے۔ جس میں انہوں نے معاد کی تفسیر قیامت کی فرمائی ہے حقیقت میں دونوں تفسیریں صحیح ہیں کیوں کہ پہلی تفسیر کا ظہور تو فتح مکہ کے وقت ہوچکا دوسری تفسیر کا حاصل یہ ہے۔ کہ قرآن کی نصیحت سن کر راہ راست پر آنے والوں کا اور گمراہی پر جمنے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے۔ اے رسول اللہ کے تم اپنا کام کیے جاؤ۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان گمراہی پر جمے رہنے والوں سے ماذا اجبتم المرسلین کا سوال کرے گا۔ تو یہ لوگ لاجواب ہوجا ہیں گے اس دوسری تفسیر کی زیادہ تفصیل صیح بخاری نسائی وغیرہ کی ابو سعید حذری ؓ کی حدیث کے حوالہ سے آیت ونزعنا من کل امۃ شھیدا کی تفسیر (صفحہ 321 جلد اول) میں گذر چکی ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہہ دو کہ میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس کو جو ہدایت پر ہے۔ اور جو کھلا گمراہ ہے اور اے رسول اللہ کے تم کو امید نہ تھی کہ تم پر خدا کی کتاب اتاری جائے گی جب اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی نعمت دی ہے۔ تو تم مشرکوں کے مددگار مت بنو مطلب یہ ہے۔ کہ ان کی مخالفت تم کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی نصیحت سے نہ روک دے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا بول بالا کرنے والا ہے اس لیے تم لوگوں کو اس معبود کی عبادت کی رغبت دلاؤ جو وحدہ لاشریک ہے۔ اور اپنی مشرک قوم کی کچھ پاس داری نہ کرو اس کے بعد اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر مشرکوں کو جتلایا کہ سوا اللہ کے اور کسی کی عبادت جائز نہیں ہے کیوں کہ سوا اس کی ذات پاک کے اور سب کو فنا ہے پھر فنا ہونے والی چیز نہ لائق عبادت ہے نہ ایسی چیز کے ہاتھ میں جزا وسزا ہے بلکہ جزاو سزا کے لیے سب اسی ذات پاک کے روبرو ایک دن حاضر کئے جاویں گے اوپر چند آیتوں کی تفسیر میں یہ ذکر گذر چکا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے دل میں تمام اہل مکہ کے راہ راست پر آجانے کی بڑی تمنا تھی ان مکی آیتوں میں بھی یہی ذکر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے لولا اوتی مثل ما اوتی موسیٰ کہہ کر تو رات کی طرح کسی کتاب آسمانی کے اہل مکہ پر نازل ہونے کا آپس میں چرچا کیا تو آنحضرت ﷺ کے دل میں بھی یہ بات تھی۔ کہ کوئی معجزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا عطا ہوجائے جس سے یہ لوگ راہ راست پر آجاویں اس پر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ راہ راست پر آنے والوں کا اور گمراہی کی حالت پر مرجانے والوں کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے۔ اس لیے علم الٰہی کے موافق جو لوگ ان میں سے گمراہی کی حالت میں دنیا سے اٹھنے والے ہیں۔ وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر راہ راست پر نہیں آنے والے اس واسطے اے رسول اللہ کے تم مشرکوں کی ایسی باتوں میں ان کے اور پاسدار بنو۔ جب یہ گمراہی کہ حالت پر مرجانے والے لوگ مرمٹ جاویں گے تو اللہ تعالیٰ تم کو فتح مند کر کے مکہ میں داخل کرے گا اور اور میدان محشر میں سب مخلوقات کے روبرو ان لوگوں سے جب تمہاری نافرمانی کی پرستش ہوگی تو یہ لوگ لاجواب ہو کر اپنی گمراہی پر بہت بچتاویں گے۔ اسی طرح کی چند آیتیں نازل ہوجانے کے بعد جب اللہ کے رسول ﷺ کو علم الٰہی کا یہ حال اچھی طرح سے کھل گیا تو آپ نے بھی پھر چند حدیثوں میں اچھی طرح یہ مطلب امت کو سمجھا دیا۔ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ ( علیہ السلام) اشعری ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور نیک وبد لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی اس قسم کی سب حدیثوں کو حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی میں جو لوگ گمراہ قرار پاچکے ہیں وہ کسی معجزہ یا نصیحت سے راہ راست پر آنے والے نہیں یہی مضمون آیتوں کا ہے اس لیے یہ حدیثیں گویا ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں۔
Top