Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
مومنو ! اگر تم اہل کتاب کے کسی فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنادیں گے
(100 ۔ 103) ۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے اور تفسیر ابو الشیخ اور تاریخ ابن اسحاق میں زید بن اسلم ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں اسلام سے پہلے بڑی عدوت اور صدہا برس کی لڑائی تھی۔ اسلام کے بعد ان دونوں قبیلوں میں بڑا میل جول ہوگیا۔ اور مدتوں کی آپس کی لڑائی بالکل جاتی رہی ایک روز ان دونوں قبیلے کے کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے بڑی محبت سے آپس میں باتیں کر رہے تھے اتنے میں ایک شخص یہودی شاش بن قیس کا ادھر سے گذر ہوا اس یہود کو یہ امر شاق ہوا کہ ان دونوں قبیلوں میں باوجود ایسی سخت عداوت کے ایسی دلی کیونکر ہوگئی اور اس یہود نے چاہا کہ ان مسلمانوں میں پھر پھوٹ پڑجائے اپن اس ارادے کے پورا کرنے کی غرض سے اس نے ایک یہودی کے لڑکے کو ان دونوں قبیلوں میں اکثر جا کر بیٹھنے اور ان دونوں قبیلوں کی پچھلی لڑائی اور عداوت کا ذکر کرنے کی پٹی پڑھا دی وہ لڑکا آ کر ان دونوں قبیلوں میں بیٹھا اور ان کو بھی غصہ آگیا اور آپس میں لڑنے کو مستعد ہوگئے آنحضرت ﷺ یہ قصہ سن کر ان مسلمانوں کے پاس تشریف لائے اور ان کو سمجھایا کہ اسلام کے بعد زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کر کے آپس میں پھوٹ کا ڈالنا مناسب نہیں ہے آخرت ﷺ کے سمجھانے سے یہ مسلمان آپس میں پھر مل گئے 1۔ اللہ تعالیٰ نے آخر رکوع تک یہ آیتیں مسلمانوں کو آئندہ یہود کے اس طرح کے فریب میں نہ آنے کی غرض سے نازل فرمائیں۔ اور ان آیتوں کے اوپر کے دوٹکڑے اہل کتاب کے اس طرح کے فریب سے باز رہنے کی غرض سے نازل فرمائے اور اہل کتاب کو یہ تنبیہ فرما دی کہ اللہ کے رستہ سے لوگوں کو جو تم روکتے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں ہے ایک دن اس کا خمیازہ تم بھگتنے والے ہو اور مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرما دی کہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور آخر دم تک مسلمانی کا شیوہ اختیار کریں اور اہل کتاب میں جس طرح آپس میں پھوٹ ہے۔ اسلام میں وہ پھوٹ روانہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کی عداوت کے بعد آپس میں تمہارے دلوں کو ملادیا ہے یہ اللہ کی بڑی نعت ہے اس نعمت کی ناشکری نہیں چاہیے اور قیامت کے دن کی سرخ روئی اور منہ جو کالے ہونے کا دل میں خیال رکھنا چاہیے اور نبی وقت تم میں موجود ہیں اور روزانہ کلام اللہ تعالیٰ کا تمہارے روبرو اترتا ہے اور احکام الٰہی تمہارے سامنے پڑھے جاتے ہیں پھر تم کیوں بہکائے سکھائے سے جاہلیت کی باتیں اختیار کرنے لگ جاتے ہو ان آیات میں یہ جو فرمایا اے ” ایمان والوں ڈرو اللہ سے حق ڈرنے کا “ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ یہ ٹکڑا آیت کا سورة تغابن کے اس آیت کے ٹکڑے فاتقو اللہ ما استطعتم سے منسوخ ہے۔ لیکن ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اور اکثر علماء سلف نے یہ کہا ہے کہ سورة تغابن کے آیت کے ٹکڑے سے اس آیت کے ٹکڑے کی صراحت کی گئی ہے یہ ٹکڑا منسوخ نہیں ہے وجہ اختلاف کی یہی کہ اس آیت کے معنوں میں علماء کا اختلاف ہے بعض علماء مفسرین یہ کہتے ہیں کہ آیت کے معنی ہیں کہ اللہ کی شان اور عظمت کے موافق اللہ سے ڈرو اس صورت میں جب دوسری آیت میں یہ صراحت آگئی کہ ہر ایک شخص کو اپنی طاقت کے موافق اللہ سے ڈرنا کافی ہے تو یہ فرقہ علماء کا آیت اول کے حکم کو منسوخ قرار دیتا ہے اور اکثر علماء حق تقاتہ کے یہ معنی کرتے ہی کہ جس قدر اللہ سے ڈرنا آدمی سے بن پڑے اسی قدر آدمی کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ اس حالت میں سورة تغابن کی آیت اس آیت کی تفسیر ٹھہرتی ہے ناسخ نہیں ٹھہرتی۔
Top