Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
(104 ۔ 109) ۔ اوپر ذکر تھا کہ یہود نے انصار کے دو گروہ کو بہکا کر ان دو گروہ کو آپس میں لڑانے کی شرارت کی تھی مگر اللہ کے رسول کی فہمایش سے یہود کا وہ بہانہ چل نہ سکا۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ سب بہکانے والوں کے سر گروہ ابلیس علیہ اللعنہ اور شیاطین الجن والانس کے اغوا سے انجان مسلمانوں کو بچانے کے لئے مسلمانوں میں ہمیشہ کے تھے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے کہ دین کی باتوں کی لوگوں کو نصیحت اور فہمایش کیا کرے۔ اس سے زیادہ تفسیر اس باب میں آئندہ کی آیت کی تفسیر میں آتی ہے۔ 110۔ 112۔ خازن وغیرہ میں جو حدیثیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ مالک بن صیف اور وہب بن یہود یہودیوں نے ایک روز عبد اللہ بن مسعود ؓ اور ابی بن کعب ؓ اور معاذ بن جبل ؓ سے بڑا جھگڑا کیا۔ اور یہ کہا کہ جس دین کی طرف تم لوگ ہم کو بلاتے ہو بلا شک ہم لوگ تم سے اور ہمارا دین تمہارے دین سے اچھے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اگرچہ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ اس آیت سے مراد فقط صحابہ ؓ ہیں۔ لیکن اکثر مفسروں نے کہا ہے کہ جس طرح کتب علیکم الصیام، کتب علیکم القصاص ان آیتوں میں صحابہ کرام ؓ کو ہی مخاطب ٹھہرایا ہے اور مراد عام امت ہے۔ اسی طرح اس آیت میں بھی عام امت مراد ہے مسند احمد ترمذی، ابن ماجہ مستدرک حاکم میں معاویہ بن حیدہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ ستر امتوں کو پورا کرتے ہو اور ان سب میں تم اللہ کے نزدیک بہتر ہو یہ حدیث مشہور ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کرہا ہے 1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ سب میری امت جنت میں جائے گی مگر جو مجھ کو نہ مانے گا وہ دوزخ میں جائے گا صحابہ ؓ نے عرض کیا حضرت وہ کون لوگ ہیں آپ نے فرمایا جو میری اطاعت نہیں کرتے 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آنحضرت کی اطاعت پوری نہیں کرتے اس کو اس خوشخبری سے جو اس آیت میں ہے کہ آنحضرت کی امت بہترین امت ہے کچھ بہرہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس امت کا شرف آپ کے اشرف الانبیاء ہونے کے سبب سے ہے چناچہ مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ مجھ کو اللہ نے وہ شرف عنایت فرمایا ہے کسی نبی کو نہ تھا۔ اور میری امت بہترین امت ہے۔ 3 پھر جو شخص باوجود ان کی امت میں ہونے کی پوری اطاعت ان اشرف الانبیاء کی نہ کرے وہ اس شرف کو جو محض آپ کی اطاعت کے سبب سے اس امت کو ملا ہے کیونکہ حاصل کرسکتا ہے بلکہ اس شرف کا حاصل کرنا تو درکنار صحیح بخاری مکی حدیث جو اوپر بیان ہوئی اس کی رو سے ایسے شخص کا جنت میں داخل ہو بھی دشوار ہے اس آیت میں اللہ نے اس امت مرحومہ کے اوصاف میں یہ وصف جو ذکر فرمایا ہے کہ ” اچھی باتوں کا امر کرتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں “ اس کے متعلق اس کی صراحت کر دینی ضرور ہے کہ اچھی باتوں کا امر کرنا۔ اور بری باتوں سے منع کرنا دو قسم کا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اس امت میں سے ایک جماعت خاص اسی کام کی ہونی چاہیے کہ وہ ان پڑھ لوگوں کو اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم سناتے رہیں۔ یہ ایک دین کا بڑا کام ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے فلاح و دارین کا وعدہ فرمایا ہے۔ چناچہ اس آیت سے پیشتر کی آیت میں گزرچکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو اور لوگوں کو نیک باتوں کی رغبت دلاتا رہے اور بری باتوں سے روکتا رہے اور اس گروہ کو اللہ فلاح و دارین کی خوش خبری سناتا ہے یہ گروہ علماء واعظین کا ہے۔ مگر اصل خوش خبری ان واعظین کو فلاح و دارین کی ہے جن کے وعظ میں اللہ اور اللہ کے رسول کا کلام سنایا جاتا ہے چناچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن مردویہ نے حضرت امام جعفر سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے یہ پڑھی اور یدعون الی الخیر کی تفسیر میں فرمایا کہ مراد خیر سے قرآن اور حدیث ہے 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو واعظ اپنے وعظ کو ادھر ادھر کے بےسند قصوں اور نقلوں اور حکایتوں میں پورا کردیتے ہیں نہ ان کا وعظ اس آیت کے حکم میں داخل ہوسکتا ہے نہ ان کے وعظ سے شریعت کی اچھی بری بات کسی انجان آدمی کو معلوم ہوسکتی ہے۔ بلکہ اس طرح کے وعظ سے ایک طرح کے عقبٰی کے مواخذہ کا اندیشہ ہے اس لئے کہ اگر کوئی انجان آدمی اس طرح کے کسی وعظ میں بےسند بات کو سن کر شریعت کی ایک بات جان لے گا تو اس کا وبال اس طرح کے بےسند واعظ کے ذمہ رہے گا۔ اس لئے اس گروہ کو لازم ہے کہ اپنے وعظ میں وہی بات پیدا کریں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے فلاح وارین کا وعدہ فرمایا ہے دوسری قسم اچھی بات کی رغبت دلانے اور بری بات سے روکنے کی کسی خاص گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ جہاں تک بن پڑے اس خلاف شریعت بات کو نیست و نابود کر ڈالے اور اگر اس خلاف شریعت بات کو نیست نابود کرنا اس مسلمان آدمی کی طاقت سے با ہر ہے تو اتنا تو ضرور ہے کہ دل سے اس خلاف شریعت بات کو برا جانے اور یہ نہایت ضعیف ایمان کا مرتبہ ہے اور بعض روایتوں میں یوں ہے کہ جس شخص میں اتنی بھی بات نہیں اس برائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں 2 اور ترمذی ابن ماجہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں مرفوع اور موقوف روایتوں میں ہے اس امت میں سے جب یہ بات اٹھ جائے گی کہ ایک دوسرے کو اچھی بات کی رغبت دلائے یا بری بات سے روکے تو اس وقت اللہ کا کوئی عذاب اس امت پر آئے گا۔ اور عذاب کے وقت پر نجات کی دعا ہرگز قبول نہ ہوگی 1۔
Top