Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 113
لَیْسُوْا سَوَآءً١ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ
لَيْسُوْا : نہیں سَوَآءً : برابر مِنْ : سے (میں) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اُمَّةٌ : ایک جماعت قَآئِمَةٌ : قائم يَّتْلُوْنَ : وہ پڑھتے ہیں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات اٰنَآءَ الَّيْلِ : اوقات۔ رات وَھُمْ : اور وہ يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ (حکم خدا پر) قائم بھی ہیں جو رات کے وقت خدا کی آیتیں پڑھتے اور (اسکے آگے) سجدے کرتے ہیں
(113 ۔ 117) ۔ طبرانی اور ابن ابی حاتم اور ابن مندہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب یہود میں سے عبد اللہ بن سلام و ثعلبہ بن شعبہ اور اسد بن عبد اور یہودی لوگ مسلمان ہوئے تو یہودی علماء نے ان مسلمانوں کی طرح طرح کی مذمت اپنی قوم کے لوگوں میں کرنی شروع کردی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مسلمان اہل کتاب کی تعریف میں ان مسلمانوں کا دل بڑہانے کی غرض سے یہ آیتیں نازل فرمائی 2۔ اور بعض مفسرین نے یہ شان نزول ان آیات کی جو بیان کی ہے کہ امت محمد ﷺ یہ اور اہل کتاب کے برابر نہ ہونے اور امت محمد ﷺ یہ کی تعریف میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی یہ روایت کہ ایک روز آنحضرت نے عشاء کی نماز بہت دیر کر کے پڑھی۔ اور پھر فرمایا کہ سوا اس امت محمد ﷺ یہ کے کسی امت کے لوگ اس وقت اللہ کی عبادت میں نہ ہوں گے 3۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس معاملہ پر بھی ان آیات کا مطلب صادق آتا ہے۔ کیونکہ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور وہی شان نزول ہے جو پہلے بیان کی گئی حاصل ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ شریعت رائج الوقت کے موافق عمل کر رہے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک کسان نے کھیتی کی اور وقت پر اناج کاٹ کر اپنے گھر لے لیا۔ اور جو لوگ ضد سے شریعت منسوخ پر عمل کر رہے ہیں اجر کے حساب سے ان کے عمل اللہ کے نزدیک ایسے ہیں جس طرح ایک شخص کھیتی کرے اور عین کاٹنے کے وقت سخت آندھی چل کر یا اولے پڑ کر وہ کھیتی ستیاناس ہوجائے پھر یہ دونوں گروہ کیونکر برابر ہوسکتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جو عمل شریعت محمد ﷺ یہ کے موافق نہ وہ بالکل رائیگاں ہے۔
Top