Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 118
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والو) لَا تَتَّخِذُوْا : نہ بناؤ بِطَانَةً : دوست (رازدار) مِّنْ : سے دُوْنِكُمْ : سوائے۔ اپنے لَا يَاْلُوْنَكُمْ : وہ کمی نہیں کرتے خَبَالًا : خرابی وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں مَا : کہ عَنِتُّمْ : تم تکلیف پاؤ قَدْ بَدَتِ : البتہ ظاہر ہوچکی الْبَغْضَآءُ : دشمنی مِنْ : سے اَفْوَاهِھِمْ : ان کے منہ وَمَا : اور جو تُخْفِيْ : چھپا ہوا صُدُوْرُھُمْ : ان کے سینے اَكْبَرُ : بڑا قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے کھول کر بیان کردیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے
مومنو ! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی (اور فتنہ انگیزی کرنے میں) کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہو ہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنادی ہیں
(118 ۔ 120) ۔ ابن جریر اور ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جس طرح اسلام سے پہلے یہود اور اہل عرب میں دوستی تھی اور آپس میں کچھ کفر اور اسلام کا فرق نہ تھا اسلام کے بعد بھی اکثر مسلمان یہود اور منافقوں سے وہی قدیمی اتحاد برتتے تھے اور یہود اور مناقفوں کا یہ حال تھا کہ دوستی کے پردہ میں یہ کیا کہ اوس اور خزرج مسلمانوں کے دو قبیلوں میں لڑائی کا سامان کردیا۔ جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گذرچکا اور عبد اللہ بن ابی منافق نے یہ کیا کہ عین میدان جنگ میں سے احد کی لڑائی کے وقت لشکر اسلام میں سے تین سو آدمیوں کو بہکا کر مدینہ لے آیا۔ جس کا ذکر آئندہ کی آیتوں میں آئے گا۔ اور زیادہ تر یہود اور منافقوں کا فریب اسی سبب سے کارگر ہوجاتا تھا کہ یہود اور منافق پہلے دوست بن کر مسلمانوں کے ہر طرح کے بھید پر واقف کاری حاصل کرلیتے تھے اور پھر فریب دے بیٹھتے تھے۔ اس واسطے اللہ نے اس سبب کو منقطع کرنے کی غرض سے یہ آیتیں آخر رکوع تک نازل فرمائیں 1۔ جن کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں تمہارے ساتھ منافقوں کا تو یہ حال ہے کہ منہ پر کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ کہتے ہیں اور یہود کا یہ حال ہے کہ تم ان کی کتاب ان کے دین کو جانتے ہو اور وہ تم سے جل جل کر اپنی بوٹیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں فرقے جل کر مر بھی جائیں تو آخر ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہے کہ اسلام بڑھے گا اور یہ دنیا میں خوار ہوں گے۔ لیکن جب یہ دونوں فرقے تم سے دلی بعض رکھتے ہیں۔ جس بغض کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے تو آئندہ تم بھی ان سے دوستی بالکل ترک کر دو ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی غیر اسلام والے شخص کا اس طرح کا دوست بنانا جس سے وہ صلاح کار۔ اور مشیر بن سکے۔ مسلمانوں کو منع ہے حدیث شریف میں بطانہ کے معنی مشیر اور صلاح کے کے ہیں۔ چناچہ صحیح بخاری اور کتب صحاح میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ہر نبی اور حاکم کے دو بطانے ہیں۔ ایک نیک صلاح دینے والا اور دوسرا بری صلاح سے بچانا اور نیک صلاح پر چلانا اللہ کے ہاتھ ہے 1
Top