Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
(130 ۔ 134) ۔ احد کی لڑائی کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ سود کا ذکر اس لئے فرمایا کہ اسی لڑائی میں ایک بڑا موقع لین دین کا پیش آیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ احد کی لڑائی کے بعد مکہ کو واپس جاتے جاتے اپنے ساتھ کے مشرکین سے ابو سفیان نے کہا کہ مسلمانوں کی جوان جوان عورتیں لونڈیاں بنا کر نہ لایا اور ان کے سرگروہ رسول وقت کو اور بقیہ مسلمانوں کو ناحق زندہ چھوڑ آیا۔ اس کا مجھ کو بڑا افسوس ہے۔ یہ خبر آنحضرت کو پہنچی۔ آپ نے حکم دیا کہ کل کے روز لڑائی میں جو لوگ گئے وہی لوگ آج پھر مشرکین کے تعاقب میں چلیں۔ اگرچہ لوگ زخمی تھکے ہوئے تھے۔ لیکن انہوں فورًا اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی تعمیل کی جس تعمیل کی تعریف اللہ تعالیٰ نے آئندہ کی آیتوں میں فرمائی ہے۔ غرض ادھر تو آنحضرت نے یہ قصد کیا کہ مشرکین پر رعب ڈالنے کی نیت سے ان کا تعاقب کیا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں میں ضعف اور رعب ڈال یا۔ انہوں نے مقابلہ سے انکار کیا۔ اور آئندہ سال کے مقابلہ کا وعدہ کیا واپسی کے وقت مسلمانوں نے ان تاجروں سے جو ان دنوں میں ہمیشہ مکہ کو تجارت کے لئے جایا کرتے تھے بہت سا تجارت کا سامان خریدا اور اللہ تعالیٰ نے اس تجارت میں بہت نفع مسلمانوں کو دیا۔ لیکن اسلام میں اس طرح کی تجارتوں میں خریدوفروخت اس طرح اکثر قبیلوں میں ہوا کرتی تھی کہ خریدوفروخت قرض کے طور پر ہوتی اور پہلی مدت پر روپیہ ادا نہ ہو تو دوسری مدت کی بابت کچھ روپیہ اور بڑھا دیا جاتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس تجارت والی لڑائی کے ذکر میں اس سود کی صورت کی ممانعت کے حکم کو ذکر فرمایا۔ تاکہ آئندہ کی آیت میں اس تجارت اور اس تجارت کے نفع کا ذکر جو ہے اس نفع حلال کا ذکر اس نفع حرام کی صراحت سے خالی نہ رہے اس سود کی بیع کی صراحت میں مجاہد سے روایت ہے کہ ایک بیع اہل عرب میں اس طرح کی تھی کہ پہلی ایک مدت میں کچھ اور دن بڑھا دیا کرتا تھا۔ اور خریدار قیمت میں کچھ دام اور بڑھا دیا کرتا تھا۔ یہ صورت سود کی تھی اسی کی مخالفت میں یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے 1۔ اس آیت میں یہ جو ذکر آیا ہے کہ ” جنت کا عرض آسمانوں اور زمینوں کی چوڑائی کے برابر ہے اس کی صراحت اس قدر کافی ہے کہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر عرض معلے کے نیچے ہے اور عرش معلیٰ کرسی سے بہت بڑا ہے۔ اور کرسی زمین اور آسمان سے بہت بڑی ہے۔ چناچہ تفسیر ابوبکر بن مردویہ میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا کہ کرسی کے مقابلہ میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایسے ہیں جس طرح بہت بڑے میدان میں ایک انگلی کا چھلا گرا پڑا ہو۔ اور عرش معلے کرسی سے اتنا ہی بڑا ہے جیسا چھلے سے وہ میدان خیال کیا جاسکتا ہے 2۔ اس حالت میں جنت کا زمین و آسمانوں کی لمبائی کے برابر ہونا یہ شبہ نہیں پیدا کرسکتا کہ پھر وہ جنت زمین آسمان میں کیونکر سمائے گی اور جنت کے ملنے کی کوشش کے ذکر میں اہل جنت کے چند اوصاف بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں اور ان میں غصہ کے وقت تحمل کرنے اور غصہ ٹل جانے کا جو ذکر ہے اس کی نسبت مسند امام احمد بن حنبل اور ترمذی اور ابو داؤد اور ابن ماجہ میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو غصہ آئے اور باوجود طاقت بد لا لینے کے وہ اپنے غصہ کو پی جائے اور جس شخص پر اس غصہ کھولنے والے کو غصہ آیا ہے اس سے بدلا نہ لیوے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اختیار دے گا کہ جنت کی جس حور کو وہ چاہے پسند کرلے 3۔ اسی طرح صحیحین اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی آدمی کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت تحمل کر کے اپنے غصہ پر غالب اور اپنے نفس پر قادر ہے 1
Top