Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا : پس۔ سے رَحْمَةٍ : رحمت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ لِنْتَ : نرم دل لَھُمْ : ان کے لیے وَ : اور وَلَوْ كُنْتَ : اگر آپ ہوتے فَظًّا : تند خو غَلِيْظَ الْقَلْبِ : سخت دل لَانْفَضُّوْا : تو وہ منتشر ہوجاتے مِنْ : سے حَوْلِكَ : آپ کے پاس فَاعْفُ : پس آپ معاف کردیں عَنْھُمْ : ان سے (انہیں) وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَھُمْ : ان کے لیے وَشَاوِرْھُمْ : اور مشورہ کریں ان سے فِي : میں الْاَمْرِ : کام فَاِذَا : پھر جب عَزَمْتَ : آپ ارادہ کرلیں فَتَوَكَّلْ : تو بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَوَكِّلِيْنَ : بھروسہ کرنے والے
(اے محمد ﷺ خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
(159 ۔ 160) ۔ یہ اوپر گذر چکا ہے کہ احد کی تیاری کے وقت پہلے آنحضرت ﷺ کی یہ صلاح تھی کہ اس لڑائی کے لئے مدینہ کے باہر جانا چاہیے پھر بعض صحابہ کے صلاح و مشورہ کے سبب سے آپ باہر نکلے اور لڑائی شروع شروع میں تو اچھی رہی اور پھر آخر کو اس میں کچھ لغزش آئی اب ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ اے نبی اللہ کے باوجود اس کے کہ لڑائی میں ایک طرح کی لغزش مسلمانوں سے ہوئی اس پر بھی تم مسلمانوں سے نرمی سے پیش آئے اور کسی پر کچھ خفگی ظاہر نہیں کی کہ یہ اللہ کی ایک رحمت تھی ورنہ ایسی حالت میں سختی سے پیش آتے تو لوگ اور بےدل ہوجاتے اور لڑائی کی تیاری کے وقت صلاح و مشورہ میں جو اختلاف پڑا اس کا بھی دل میں کچھ خیال نہ لانا چاہیے۔ آئندہ حسب عادت، صحابہ ؓ سے مشورہ طلب امور میں مشورہ لیا کرو تاکہ ان کا جی خوش ہو اور امت کے لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ مشورہ لینامشروع ہے ہاں بعد مشورہ کے ہر طرح کا بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہیے کہ بغیر مدد اللہ کے کسی کام میں آدمی کو سر سبزی نہیں ہوسکتی۔ شعب الایمان بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو مشورہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ سیوطی نے اس حدیث کی سند کو معتبر بتلایا ہے 1 فیما رحمتہ لفظ ما تاکید کے لئے بڑھایا گیا ہے اصل برحمۃ من اللہ ہے۔
Top