Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے۔
(196 ۔ 198) ۔ اوپر کی آیتوں میں ذکر تھا کہ مخالف شریعت لوگوں کی تجارت بڑے ٹوٹے کی تجارت ہے کیونکر دنیاچند روزہ ہے اس میں پھر چل کر ان لوگوں نے کچھ کمال یا توبہ سبب مخالفت شریعت الٰہی کے پھر عقبیٰ کا ابد الابآد عذاب الٰہی ان کو بھگتنا پڑے گا۔ اس مطلب کی فہمائش کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورت کو اس مضمون پر ختم کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں کی دنیا کی آسودگی بہت جلد جانے والی چیز ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے پھر فرمایا جو لوگ پابند شریعت الٰہی ہیں وہ بھی تجارت سے نفع دنیاوی اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان میں یہ وصف ہے کہ دنیا کے پیچھے انہوں نے اپنے دین کو نہیں گنوایا۔ اس لئے ان کو عقبیٰ میں بڑی بڑی راحتیں ہیں جنت اور دوزخ کے طرح طرح کے حالات میں اس قدر کثرت سے حدیثیں ہیں جن کا بیان کرنا مشکل ہے اس لئے مختصر طور پر اتنا ذکر کردینا کافی ہے کہ جنت کی نعمتوں کے باب میں تو ابوہریرہ ؓ کی حدیث قدسی صحیح بخاری و مسلم کی اوپر گذر چکی ہے کہ جنت کا تفصیلی حالت نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا نہ ان کا تصور خیال کسی کے دل میں گزر سکتا ہے 2 اور دوزخ کے باب میں نعمان بن بشیر ؓ سے صحیحین کی روایت ہے کہ کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ آگ کی جوتیاں ان کم عذاب والے دوزخیوں کے پاؤں میں پہنا دی جائیں گی۔ جن سے ان کا بھیجا کھولنے لگے گا۔ جس طرح دیگ میں پکتے وقت کوئی چیز کھولنے لگتی ہے 3۔ غرض خدا تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسے عملوں کی توفیق دے جس سے ان کو دوزخ کی آفتوں سے بچنا اور جنت کی نعمتوں کو برتنا نصیب ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
Top