Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 85
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنوں کو چاہئے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو تو مضائقہ نہیں اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے
تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انصار میں بعض لوگوں کی کعب سے دوستی تھی اس نے انصار سے کہا کہ وہ اپنے دوست مسلمانوں کو دھوکا دیں ان مسلمان انصار کے چند دوستوں نے یہود کے اس ارادہ کا تذکرہ ان انصار مسلمانوں سے کیا اور یہود کے دوستی چھوڑنے کی نصیحت کی۔ مگر ان مسلمان انصار نے ان یہود کی دوستی چھوڑنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 3۔ اور فرما دیا کہ مسلمانوں کو کافروں سے دوستی نہیں رکھنی چاہیے۔ کیوں کہ اللہ کی محبت اور کافروں کی محبت ایک جگہ ایک دل میں نہیں جمع ہوسکتی ہاں اگر ایسا ہی کہیں جان کا خوف ہو تو ظاہر میں ان سے دفع ضرر کے لئے میٹھی بات کرلی جائے مگر دلی دوستی ان سے نہ رکھی جائے باوجود اس فہمایش کے جو کوئی باز نہ آئے گھا اللہ اس سے بیزا رہے اور اس طرح کا شخص قیامت کے دن اللہ سے معاملہ پڑنے کے وقت اپنے کئے پر پچھتائے گا۔ اسی واسطے ابھی سے اللہ اس دن کا اپنا معاملہ پڑنے سے اے مسلمانوں تم کو ڈرائے دیتا ہے تاکہ اس وقت تم کو پچھتاوا نہ ہو اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے اس لئے ان کو یہ فہمایش کر کے قیامت کے دن کا اپنا معاملہ پڑنے سے پہلے توبہ کرنے کا موقع ان کو دیتا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو اپنے خلاف مرضی کاموں کو مواخذہ بلاتوبہ کے موقع دینے کے فورا بھی کرلیتا بخاری (رح) نے ابو درداء سے روایت کی ہے کہ بہت سے مخالف ملت لوگوں سے ہم ظاہر خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور ویسے ہم ان پر لعنت کرتے تھے 4۔ اور اہل کتاب سے دوستی رکھنے کی جو ممانعت ہے اس کا سبب آیت { وَدَّکَثِیْرْ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ } (2۔ 109) میں گذر چکا ہے۔ اس آیت سے لوگوں نے تقیہ نکالا ہے۔ مگر تقیہ کے یہ معنی ہیں کہ جب آدمی کو جان کا خوف ہو تو صرف زبان سے کوئی بات ایسی کہہ دینی جائز ہے جس سے جان بچ جائے خلاف شریعت کسی عمل میں تقیہ جائز نہیں ہے۔ چناچہ سفیان ثوری نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ تقیہ صرف زبان سے ہے عمل میں نہیں ہے 1۔ بعض صحابہ کا یہ مذہب ہے کہ صرف لڑائی کے وقت تقیہ جائز ہے اور کسی وقت کا نہیں 2۔
Top