Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 5
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِؕ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَخْفٰى : نہیں چھپی ہوئی عَلَيْهِ : اس پر شَيْءٌ : کوئی چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں
خدا (ایسا خبیر وبصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں
(5 ۔ 6) حاصل مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ایسا وسیع ہے کہ اس کو زمین و آسمان کی سب غیب کی باتیں معلوم ہیں کوئی اس کے علم سے باہر نہیں ہے اس لئے ماں کے پیٹ میں گورا ‘ کالا ‘ لڑکا ‘’ لڑکی ‘ نیک و بد سب کچھ اس کے علم کے موافق ہوتا ہے اسی کو تقدیر کہتے ہیں اب اس میں ان عیسائی لوگوں کو یہ دھمکی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ کر خدا کی توحید میں جو یہ لوگ خلل ڈالتے ہیں اور اللہ کے کلام کو جھٹلاتے ہیں ذرا ذرا یہ سب باتیں اللہ کو معلوم ہیں اور ان لوگوں کے اعمال نامہ میں یہ سب باتیں لکھی جاتی ہیں وقت مقرر آنے کی دیر ہے پھر یہ لوگ دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے اور اس دھمکی کے ساتھ ہی یہ فہمایش بھی ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) اور مخلوق کی طرح حضرت مریم (علیہ السلام) کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ماں کے پیٹ میں نطفہ کی حالت سے لے کر پیدائش کی حالت تک بچہ پر جو کچھ تغیرات گذرتے ہیں وہ ان کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں تو پھر باوجود اس کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ لوگ خدا کا بیٹا کس مشابہت سے کہتے ہیں۔ رہا عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہونا یہ اللہ کی اس قدرت سے کچھ بعید نہیں جس قدرت سے اس نے آدم ( علیہ السلام) اور حوا کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کردیا۔ کیونکہ وہ بڑا زبر دست حکمت والا ہے۔ کوئی مشکل کام اس کی حکمت کے آگے مشکل اور کوئی بڑا کام اس کی قدرت کے آگے بڑا نہیں۔ اگرچہ یہ آیتیں ان بخرانی عیسائیوں کی شان میں اتری ہیں۔ لیکن قرآن کی نصیحتیں عام ہیں اب کسی قوم کے کسی شخص میں کسی نصیحت کے قابل کوئی ویسی بات پائی جائے گی تو قرآن کی نصیحت گویا اسی کی شان میں ہوگی۔
Top