Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہوجاؤ تو وہ (انسان) ہوگئے
(59 ۔ 63) ۔ بیہقی نے دلائل النبوہ میں اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اور ابن سعد نے طبقات میں اس آیت کی شان نزول جو بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نجران کے نصاریٰ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان کو اسلام لانے کا پیغام تھا وہاں سے کچھ نصاریٰ کے سرغنہ اور پادری لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس بحث کو آئے آنحضرت ﷺ نے ان سے اسلام لانے کو کہا انہوں نے جواب دیا کہ ہم تم سے پہلے ہی اسلام لا چکے ہیں آپ نے فرمایا تم حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہو اور سور کا گوشت کھاتے ہو اور حضرت عیسیٰ اور مریم کی تصویروں اور صلیب کی پوجا کرتے ہو یہ باتیں تمہارے دین میں کب جائز ہیں انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ اگر خدا کے بیٹے نہیں تو بتاؤ دنیا میں ان کا باپ کون ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 1۔ اور فرما دیا کہ جس طرح بےماں باپ کے حضرت آدم اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ بعد اس فہمایش کے بھی یہ نصاریٰ نہ مانے تو جھوٹے گروہ پر بد دعا کرنے کا جو طریقہ ہے دونوں فریق مسلمان و نصاریٰ جنگل میں جا کر اس کو جاری کریں جھوٹا گروہ خود وبال میں پھنس جائے گا یہ حکم سن کر نصاریٰ نے آنحضرت سے کہا کہ کل ہم آپس میں صلاح کرکے بد دعا کرنے کے طریقہ پر عمل کریں گے پھر آپس میں صلاح کی اور دوسرے روز آنحضرت ﷺ حضرت علی ؓ اور حسنین ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کو ساتھ لے کر جنگل میں جا کر جھوٹے گروہ پر بد دعا کرنے کو تیار ہوگئے اور حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ اور دونوں صاحبزادوں سے یہ کہہ دیا کہ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا ان نصاریٰ میں ایک شخص شرجیل پادری تھا اس نے نصاریٰ سے کہا کہ یہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کی بددعا کے بعد ہم سب ہلاک ہوجائیں گے اس واسطے میرے رائے یہ ہے کہ بد دعا باہمی کو موقوف کردیا جائے۔ چناچہ پھر رجب کے مہینہ میں اور صفر کے مہینے میں کچھ مال داخل کرنے پر ان لوگوں سے آنحضرت ﷺ نے صلح کرلی اس صلح کے مال کو سالانہ ان نصاریٰ سے ٹھہرایا گیا تھا۔ بعض مفسرین نے جزیہ کہا ہے اور بعض مفسرین نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ معاملہ فتح مکہ سے پہلے 9 ؁ ہجری کا ہے اور جزیہ کی آیت جو سورة توبہ میں ہے فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے پھر آخر یہ بات قرار پائی ہے کہ یہ مال جزیہ کا نہیں تھا بلکہ بطور صلح کے تھا مسند امام احمد بن حنبل ‘ بخاری ‘ ترمذی ‘ اور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ابو جہل نے ایک دفعہ ہجرت سے پہلے یہ جو کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھوں گا تو ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر ان کو کچل ڈالوں گا۔ اگر وہ اپنا ارادہ پورا کرنے کو آنحضرت ﷺ کی نماز پڑھنے کے وقت مسجد حرام کی طرف آتا بھی تو فورا آسمان سے فرشتے آکر سب کے سامنے اس کو ہلاک کر ڈالتے۔ اسی طرح یہود کو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر اپنے اس قول میں تم سچے ہو کہ مرنے کے بعد چند روز کے سوا تم کو دوزخ کی آگ نہیں جلائے گی تو مرنے سے کیوں ڈرتے ہو مرنے کی خواہش کرو اس پر یہود اگر آج اپنے آپ کو سچا جان کر موت کی خواہش کریں تو ابھی سب مرجائیں اور آج ہی ان کے ہمیشہ رہنے کے دوزخ کے ٹھکانے ان کو دکھا دیے جائیں۔ اور نجران کے نصاریٰ آنحضرت ﷺ سے بد دعا کا مقابلہ کرتے تو ایک بھی ان میں کا جیتا نہ رہتا۔
Top