Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 54
اِنْ تُبْدُوْا شَیْئًا اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم ظاہر کرو شَيْئًا : کوئی بات اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عَلِيْمًا : جاننے والا
اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو یا اس کو مخفی رکھو تو (یاد رکھو) کہ خدا ہر چیز سے باخبر ہے
54۔ حضرت عمر ؓ کی یہ حدیث جو اوپر گزری کی مقام ابراہیم کے مصلیٰ ٹھہرانے کی آیت اور یہ پردہ کی آیت اور چند آیتیں حضرت عمر ؓ کی رائے کے موافق نازل ہوئی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ کو پہلے پردہ کی صلاح دی تھی پھر حضرت زنیب ؓ کے ولیمہ والے دن یہ آیت نازل ہوئی اور صحیح بخاری وغیرہ کی حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث جو مشہور ہے کہ حضرت سودہ ؓ ایک رات چادر اوڑھ کر حاجت بشری کے لیے گھر سے باہر نکلیں اور حضرت عمر ؓ نے ان کو دھمکایا یہ قصہ پردہ کی آیت کے بعد کا ہے 2 ؎ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 505 ج 3۔ ) اور حضرت عمر ؓ کی اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہوئی چناچہ اس کی صراحب صحیح بخاری کی حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے یہ جو ایک شبہ مشہور ہے کہ بعض رویتواں میں یہ ہے کہ حضرت زنیب کا ولیمہ روٹی سالن کا ہوا اور بعض روایتوں میں مالیدہ کا ذکر ہے حافظ ابن حجر (رح) نے اس شبہ کو فتح الباری میں رفع کردیا ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے روٹی سالن اس ولمیہ میں پکوایا تھا اور حضرت ام سلیم ؓ نے مالیدہ بنا کر اس ولیمہ کے لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا اس لیے بعض روایتوں میں ایک چیز کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں دوسری چیز کا۔ ام سلیم ؓ انس بن مالک ؓ کی ماں کی کنیت ہے ان کا نام سہلہ ہے یہ مشہور صحابیات میں سے تھیں حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد ترمذی نسائی اور صحیح ابن حبان میں ام سلمہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوۃ ص 469 باب النظر الی المخطوبۃ وبیان العورات) جس کا حاصل یہ ہے کہ اس پردہ کی آیت کے نازل ہونے کے بعد ایک دن عبداللہ بن ام مکتوم حضرت کی بیوی ام سلمہ ؓ کے گھر میں آئی اس وقت حضرت ﷺ بھی وہاں موجود تھے آپ نے ام سلمہ ؓ کو عبداللہ ؓ سے پردہ کرنے کا حکم دیا اس ام سلمہ ؓ نے کہا کہ حضرت عبداللہ تو نابینا ہیں یہ سن آپ نے فرمایا کہ وہ نابینا ہیں تو آخر تمہاری تو آنکھیں ہیں مسند امام احمد ابوداؤد ونسائی اور مختصر طور پر صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس ؓ کی بڑی روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ مشکوۃ 288 باب العدۃ) جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فاطمہ ؓ نبت قیس کو انہیں عبداللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت کے دن گزرا نے کا حکم دیا ہے ‘ ابو داؤد منذری (رح) ‘ حافظ ابن حجر (رح) اور اور علمانے اس قسم کی مختلف حدیثوں کی مطابقت میں وہی بات بان کی ہے جو بات شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں پر یہپردہ کا حکم واجب تھا اور مسلمانوں کی عورتوں پر مستحب ہے مستحب شریعت میں وہ چیز ہے جس کا کرنا بہتر ہو اور نہ کرنے میں کچھ گناہ نہ ہو جیسے مثلا جمعہ کے دن اچھے کپڑوں کا پہننا مستحب کے عمل سے ممانعت کے کام میں پڑجانے کا خوف ہو تو خدا سے ڈرنے والے مر عورت کو ایسے مستحب پر عمل کرنا جائز نہیں ہے چناچہ معتبر سند سے ترمذی میں عطیہ ؓ سعدی سے روایت 3 ؎ ہے (3 ؎ مشکوٰۃ ص 242 باب الکسب وطلب الحلال) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کوئی شخص متقی نہیں ہوسکتا جب تک وہ جائز چیز کو ناجائز نتیجہ کا خوف نہیں تھا تو صحابہ ؓ کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا جب یہ بات باقی نہیں ریہ تو صحابہ (رح) میں اختلاف پیدا ہوگیا چناچہ صحیح بخاری ومسلم 4 ؎ میں حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے (4 ؎ صحیح بخاری باب خروج النساء الی المساجد وباللیل) کہ جس طرح اب عورتیں اچھے کپڑے پہن کر اور عطرمل کر مسجد میں نماز کو جاتی ہیں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ اس طرح جاتیں تو ان کو مسجد میں جانے کی کبھی اجازت نہ ہوتی۔ حضرت عائشہ ؓ کے اس قومل کا مطلب یہ ہے کہ جن رواتیوں میں عورتوں کے مسجد میں جانے کی اجازت ہے ان میں سے بعض روایتوں 5 ؎ میں یہ بھی ہے (5 ؎ دیکھئے مشکوۃ باب الجماعۃ وفصل فصل اول وثانی۔ ) کہ خوشبولگا کر کوئی عورت مسجد میں نہ آوے اب عورتوں نے اس اجازت کو تو پکڑلیا ہے اور اس کی شرطوں کو چھوڑ دیا ہے جس سے ناجائز نتیجوں کا اندیشہ ہے اس لیے اگر یہ حالت اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کی ہوجاتی تو یہ اجازت ہرگز قائم نہ رہتی اب بھی مانہ کا ڈھنک دیکھ کر جو نیک لوگ عورتوں کے پردہ کے باب میں سخت رائے رکھتے ہیں وہ بالکل حضرت عائشہ ؓ کے ہم قول ہیں اور عطیہ سعد کی روایت ان کی تائید کے لیے کافی ہے ‘ سمند بزار اور طبرانی میں حضرت علی ؓ سے صحیح روایت 1 ؎ کہ (1 ؎ نیل الاوطار ص 241 ج 2 نیز دیکھئے مشکوٰۃ باب النظرالی المخطوبو الخ بروایت حضرت عمر ؓ دار المنثورص 214 ج 5‘) اجنبی مرد اور عورت جہاں ایک جاہ ہوں تو ان کے بہکانے کے لیے وہاں ان دونوں میں تیسرا شیطان آن موجود ہوتا ہے۔ یہ حدیث ذلکم اطھر تعلوبکم وقلوبھن کی گویا تفسیر ہے سنن بہقی تیر سدی تفسیر ابن اب حاتم وغیرہ میں آیت کے آگے کے ٹکڑے کی شان نزول حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت 2 ؎ سے جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب پردہ کا حکم نازل ہوا اور اس عمل جا کی ہوگیا تو صحابیوں میں سے ایک شخص طلحہ بن عبید اللہ ؓ کو یہ ایک نئی بات معلوم ہوئی اس واسطے طلحہ ؓ نے یہ کہا کہ اب تو یہ حکم ہے لیکن اگر محمد ﷺ کی وفات میرے سامنے ہوئی تو عائشہ یا ام سلمہ ؓ سے میں ضرور نکاح کروں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کا یہ ٹکڑا نازل فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب رسول ﷺ کی بیویوں کو امت کے لوگوں کو ماں ٹھہرادیا تو اللہ کے رسول ﷺ کی کسی بیوی سے مت میں کا کوئی شخص کبھی نکاح نہیں کرسکتا پھر یہ لوگ ایسی باتیں منہ سے کیوں نکالتے ہیں جن کے سننے سے اللہ کے رسول کو رنج ہوتا ہے اور اس رنج سے ایذا پہنچتی ہے تمہارے نزدیک اس طرح کی بات ایک معلولی بات ہے لیکن اللہ کے نزدیک اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانے کی بات بڑے وبال کی چیز ہے پھر فرمایا ایسی باتیں تم لوگ زبان پر لاؤیادل میں رکھو یہ سب اللہ کو خوب معلوم ہیں کیونکہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس لیے ایسی باتوں کے دل میں خیال رکھنے اور زبان پر لانے سے بچنا چاہئے۔
Top