Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 71
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
يُّصْلِحْ : وہ سنوار دے گا لَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) اَعْمَالَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) وَيَغْفِرْ : اور بخش دے لَكُمْ : تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ ۭ : تمہارے گناہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ فَازَ : تو وہ مراد کو پہنچا فَوْزًا عَظِيْمًا : بڑی مراد
وہ تمہارے سب اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بیشک بڑی مراد پائے گا
73۔ اس آیت سے پہلی آیت میں امانت کا ذکر تھا آیت کے پہلے ٹکڑے میں جس امانت کا ذکر تھا آیت کے اس مخری ٹکڑے میں اس مانت کا یہ نتیجہ بیان فرمایا کہ جو منافق اور مشرک لوگ اس امانت میں خیانت کریں گے ان پر عذاب ہوگا اور جو ایماندار لوگ اس امانت کی شرط کو پورا کریں گے وہ اللہ کی رحمت کے قابل ٹھہریں گے منافق وہ تھے جو ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور باطن میں اسلام کے بدخواہ تھے مشرک وہ جو ظاہر اور باطن میں کھلم کھلا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے پر اور اس کے رسول مقبول صلے ﷺ کی مخالفت کرنے پر ہر وقت آمادہ و تیار رہتے تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے معاذبن جبل ؓ کی حدیث 1 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الایمان فصل اول۔ ) جس میں اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں پھر اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہوگا کہ وہ اپنے ایسے بندوں کی مغفرت فرماوے ‘ حضرت عبداللہ اللہ بن عباس ؓ نے آیت میں کے لفظ امانت کی جو تفسیر فرمائی ہے اس صحیح حدیث سے اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ شرک اور نفاق کی خیانت سے بچنے کی جو شرط حق الٰہی کے ساتھ حدیث میں ہے وہی ہر طرح کی خیانت سے پچنے کی شرط امانت میں ہوا کرتی ہے اس حدیث اور آیت کو ملانے کے بعد پوری آیت کی تفسیر کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کا گیا کہ جو شخص بشریت کے تقاضے سے حق الٰہی کے ساتھ حدیث میں ہے وہی ہر طرح کی خیانت سے بچنے کی شرط امانت میں ہوا کرتی ہے اس حدیث اور آیت کو ملانے کے بعد پوری آیت کی تفسیر کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو شخص بشریت کے تقاضے سے حق الٰہی کی امانت میں کچھ خیانت کر بیٹے گا اور پھر خالص دل سے توبہ کر کے امانتداری کی حالت پر جم جاوے گا تو اللہ غفور رحیم ہے وہ اس کی مغفرت فرماوے گا ہاں جو شخص مرتے دم تک شرک ونفاق کی خیانت حق الٰہی میں کرے گا وہ آخرت کے عذاب میں پکڑا جاوے گا کس لیے کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا کے پیدا ہونے کی بنیاد اس جزا وسزا کے فیصلہ پر قائم ہوئی ہے یہی انتظام آسمان زمین اور پہاڑوں کو جتلایا گیا تھا جب انہوں نے ذمہ داری سے ڈر کر اس انتظام کو اپنے ذمہ نہیں لیا اور سب بنی آدم کے باپ آدم ( علیہ السلام) نے اس انتظام کو اپنے ذمہ لے لیا تو سب بنی آدم کو اس عہد پر قائم رہنا چاہئے کیوں کہ الست بربکم کے جواب میں سب بنی آدم ( علیہ السلام) نے بھی عہد کا اقرار کیا ہے جس کا ذکر سورة الاعراف میں گزر چکا۔
Top